ورلڈ بینک کی امدادی حکمتِ عملی
[World Bank Assistance Strategy]
ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری-
مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ورلڈبینک پاکستان کے اندرونی معاملات میں زیادہ دخیل ہوگیا ہے۔ ورلڈبینک امریکی حکومت کا وہ ذیلی ادارہ ہے جس کا تصور سب سے مشہور دستاویز Protcols of the Elders of Zion” میں بیسیویں صدی کے آغا زمیں پیش کیا گیا۔ ورلڈبینک ١٩٤٤ء میں قائم کیا گیا ہے اس کا صدر ہمیشہ ایک امریکی باشندہ ہوتا ہے۔ موجودہ صدر ”John wolfensohn” بھی امریکی ہے اور Zionist تنظیموں کو گہرے روابط ہیں۔
١٩٤٤ ء سے ١٩٧٠ کی دہائی کے آخرتک ورلڈبینک اپنے آپ کو ایک ٹیکنیکل ادارہ کے طور پر متعارف کراتا تھا لیکن ١٩٨٠ء کی دہائی سے وہ ایک معاشرتی ادارہ بن جانے کا دعوٰ کرنے لگا ہے ورلڈبینک کی قیادت کہتی ہے کہ اس کا مقصد پوری دنیا سے غربت کا خاتمہ ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے صرف معاشی امداد دینا کافی نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایشیائی اور افریقی ممالک میں ایک ہمہ گیر انقلاب برپا کیا جائے۔ ایک ایسا معاشرتی انقلاب جو ان ممالک کے اسلامی تشخص کو مٹا دے اور ان ممالک میں ایک لبرل سرمایہ دارانہ معاشرہ قائم کرے۔
جولائی ٢٠٠٢ء میں ورلڈبینک نے پاکستان کے لیے جو امدادی حکمت عملی برائے ٢٠٠٣ء تا ٢٠٠٥ء مرتب کی ہے اس کا مقصد بھی پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کرکے یہاں ایک لبرل سرمایہ دارانہ معاشرے کا قیام ہے۔ اس حکمت عملی کی تفصیل ورلڈبینک کے پاکستانی ویب سائٹ www.worldbankorgpk پر موجود دستاویز Pakistan:Country Assistance Strategy 2003-05 سے اخذ کرکے آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
ورلڈبینک کی یہ دستاویز مشرف حکومت کی پرزور تعریف سے شروع ہوتی ہے۔ ورلڈبینک کے مطابق مشرف حکومت نے اپنی دلیرانہ قیادت کے ذریعے ملک کی قسمت بدل کر رکھ دی ہے۔ یہ حکومت بنیادی، سیاسی، ادارتی، معاشرتی اور صنفی اصلاحات کو عملی جامہ پہنا رہی ہے، اس نے عورتوں کو گھروں سے نکال کر لوکل حکومتوں اور پارلیمنٹ میں وسیع نمایندگی دی ہے، اس نے پاکستانی مالیاتی اداروں کو عالمی سود اور سٹہ کے بازاروں کے ماتحت کردیا ہے، لوگوں کے معاشرتی رویوں میں تبدیلی لانے کی بھرپور کوشش کی ہے تاکہ پاکستان ایک ماڈرن ملک بن جائے۔
دستاویز میں لکھا ہے کہ مشرف کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ سب سے بڑی رکاوٹ مدارس کی ہے۔ ضیاء الحق کی انتہاپسند حکومت نے ان مدارس کی حوصلہ افزائی کی اور افسوس اس کا ہے کہ حکومت مدارس کی اسناد کو یونیورسٹیوں کی ڈگریوں کے برابر مانتی ہے۔ اس کے نتیجہ میں مدارس کے تعلیم یافتہ طلبہ سول سروس میں گھس گئے اور انہوںنے ریاست کو مزید تعصب اور فرقہ واریت کو فروغ دینے پر مجبور کردیا۔ مدارس غریب والدین میں اس لیے مقبول ہوگئے ہیں کہ یہ مفت تعلیم اور کفالت فراہم کرتے ہیں، ان کے طلبہ نے دہشت گردی کے ذریعے حکومت کو اسلامی پالیسیاں اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ بیس فیصد مدارس عسکری تربیت فراہم کرتے ہیں اور تمام حکومتیں اس سے چشم پوشی اختیار کرتی ہیں۔
دوسری رکاوٹ جہاد کشمیر ہے حکومت کسی صورت بھارت سے صلح کرنے پر آمادہ نہیں اور اب بھی مجموعی قومی آمدنی کا 4.7 فیصد دفاع پر خرچ کرتی ہے۔ اس کے باوجود حکومت نے جو پیش رفت کی ہے وہ قابل صد تحسین ہے اور یہی وجہ ہے کہ ٢٠٠٤۔٢٠٠١ ء کے دورانیہ کے لیے 1.4 فیصد بلین کا قرضہ دیا ہے اور اس عرصہ کے لیے مغربی حکومتوں نے 3.3 فیصد بلین کے قرضوں میں چھوٹ دی ہے۔ حکومت نے جو معاشی حکمت عملی مرتب کی ہے اس کا سب سے قابل تحسین پہلو یہ ہے کہ وہ تیل، گیس اور بجلی کے شعبوں کو مکمل طور پر نجی کمپنیوں کے حوالے کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اسی سے تیل، گیس اور بجلی کی قیمتیں مستقل طور پر بڑھتی رہیں۔ تیل، گیس، بجلی اور معدنی شعبوں پر امریکی اور یورپی سرمایہ کاروں کا قبضہ ہوجائے گا اور ملک میں بڑی صنعتوں کا قیام بحال ہوجائے گا۔ ورلڈبینک امید رکھتا ہے کہ حکومت نجی شعبہ کی ترقی پر جو زور دے رہی ہے اس کے نتیجہ میں سرمایہ دارانہ ملکیت کا نظام مستحکم ہوگا اور دفاعی اخراجات تیزی سے کم ہوںگے اور سرمایہ دارانہ معاشرت فروغ پائے گی۔ تجارتی پالیسی میں ایسی تبدیلیاں کی جائیں گی کہ ملکی صنعت تمام تحفظات سے بالکل محروم ہوجائے گی۔ نجکاری کے ذریعے بیرونی سرمایہ کاروں کا تسلط کلیدی شعبوں، بالخصوص تیل، گیس، بجلی، معدنیات اور بینکوں پر قئام ہوجائے گی۔ PTCL کو بھی بیچ دیا جائے گا تاکہ ہمارے مواصلاتی نظام(Telecommunication) یہ بھی استعماری کمپنیاں مسلط ہوجائیں۔ غیرملی کمپنیاں ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبہ میں بڑے پیمانہ پر داخل کردی گئیں ہیں اور PTCL کی اجارہ داری ختم کردی گئی ہے۔ حکومت تمام قومی بینکوں اور مالیاتی کمپنیوں کو بیچنے کا عزم رکھتی ہے اور ورلڈبینک کے پرانے ملازم عشرت حسین اسٹیٹ بینک کے گورنر کی حیثیت سے پورے مالی نظام کو ورلڈبینک اور آئی ایم ایف کی مرضی کے مطابق چلا رہا ہے۔ حکومت کے اربوں روپے یونائیٹڈبینک میں جھونک کر اس کو کوڑیوں کے مول بیچ دیا گیا۔ فنانشل شعبوں سے ہزاروں آدمیوں کو نوکریوں سے نکالا گیا ہے۔ ٦٥٠ برانچیں بند کردی گئی ہے، امتناع سود کے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو تبدیل کردیا گیا ہے اور ایک دو غلا نظام بینکاری رائج کیا جارہا ہے، جب اسلامی بینک مسلمانوں کا پیسہ سود اور سٹہ کے بازاروں کو فراہم کریں گے تو حلال رزق کے مواقع کم سے کم ہوتے چلے جائیں گے۔
ورلڈبینک کی معتمد مشیر زبیدہ جلال وزارتِ تعلیم پر بدستور قابض ہیں۔ انہوںنے چاروں صوبائی اور وزراء تعلیم کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے جس کے نفاذ کے نتیجہ میں نظام تعلیم کو ورلڈبینک کے منشاء کے تحت ازسرنو مرتب کیا جائے گا۔ اس معاہدہ Memorandum of Understanding کے سابق مطابق صوبوں کو جو رقم مرکز تعلیم کے شعبہ میں فراہم کرے گا وہ اس بات سے شرائط ہے کہ صوبائی حکومت ورلڈبینک کی منظور شدہ اصلاحات صوبہ میں نافذ کرے۔ لڑکیوں کی مخلوط تعلیم کے فروغ پر شدت سے زور دیا گیا ہے۔
صحت کے شعبہ میں جنسی تعلیم کو عام کرنے اور مانع حمل ازدویہ کے فروغ کو ترجیح دی گئی ہے۔ ورلڈبینک نے وفاقی حکومت کے ”لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام” کی بہت تعریف کی ہے کیونکہ جن علاقوں میں یہ پروگرام نافذ کیا گیا ہے وہاں ان لیڈی ورکر کی کارکردگی کے نتیجہ میں عورتوں کے مانع حمل طریقوں کا استعمال ٥٠ فیصد بڑھ گیا ہے اور فحاشی وعریانی نے بھی فروغ پایا ہے۔ ورلڈبینک کہتا ہے کہ عورتوں میں بے راہ روی کو فروغ دینے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اسلامی قوانین ہے۔ مشرف حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد ایک National Commetion for the status of Women (NCSW) قائم کیا اس کمیشن میں عورت فاؤنڈیشن اور ہیومن رائٹس کمیشن جیسی بدنام زمانہ زمانہ اسلام دشمن تنظیمیں شامل ہیں۔ عورت فاؤنڈیشن نے تمام اسلامی قوانین کو ختم کرنے کی تجاویزکمیشن کے سامنے پیش کی ہیں۔ کمیشن حدود آرڈیننس قانون رسالت اور قذف کے قوانین کی تنسیخ کے لیے مہم چلا رہا ہے۔ ورلڈبینک امید رکھتا ہے کہ اس سال کی مدت میں یہ تمام قوانین منسوخ ہوجائیں گے۔ ان قوانین کی تنسیخ اور عورتوں میں بے راہ روی پھیلانے کی تمام اسکیموں کے تقاضا کے لیے ورلڈبینک حکومت کو بڑے پیمانہ پر تکنیکی امداد فراہم کر دیا ہے۔ ان تمام اصلاحات کے نفاذ کا وعدہ حکومت نے ایک دستاویز میں کیا ہے جسے Interim Poverty Reduction Strtegy Paper (I.P.R.S.P) کہتے ہیں۔ بینک امید رکھتا ہے کہ جمالی حکومت اس I.P.R.S.Pکی توثیق فوراً کردے گی، بینک کی خواہش ہے کہ پالیسی سازی کے پورے عمل میں ہر سطح پر اسی کو شریک کیا جائے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں بینک نے ایسے بے غیرت اور غداروں کا ایک وسیع جال بچھایا ہے جو اس کو منٹ منٹ کی خبریں پہنچاتے اور اس کی پالیسی ترجیحات کو نافذ العمل بناتے ہیں۔ یہ حال فیڈرل سیکریٹری سے لے کر سیکشن آفیسر تک کے افسران پر مشتمل ہے۔ ورلڈ بینک کا اسلام آباد دفتر اور اس کے لیے کام کرنے والی اسپکشن ٹیمیں مثلاً Sustainable Policy Development Center, Social Policy and Development Center, Algo Resources Center ورلڈبینک کے مشن کو فروغ دینے کے لیے حکومتوں پر زور ڈالتے رہتے ہیں۔ ورلڈبینک پالیسی سازی پر مستقل بالادستی حاصل کرنے کو اوّلین ترجیح گردانتا ہے۔ ورلڈبینک کی یہ دستاویز (جس کی میں تلخیص پیش کر رہا ہوں، بتاتی ہے کہ پالیسی سازی کو متاثر کرنے میں سب سے زیادہ کامیابی اس کو سندھ اور صوبہ سرحد میں حاصل ہوئی ہے۔ ان دونوں صوبوں میں مالیاتی اور انتظامی شعبوں میں بینک کے حسب منشاء تبدیلیاں کی گئی ہیں اور پالیسی سازی ورلڈبینک کے ماتحت ہوگئی ہے۔ شہری حکومتوں پر بھی ورلڈبینک پالیسی سازی کے عمل میں خاصا نفوذ حاصل کرچکا ہے۔
ورلڈبینک کی رائے میں جن اداروں پروہ وہ مکمل تسلط حاصل کرچکا ہے وہ ہیں، اسٹیٹ بینک، آڈیٹر جنرل آفس سینٹرل بورڈ آفس ریونیو (CBR) اور کنٹرولر جنرل آفس اور کنٹرولر آف جنرل آف اکاؤنٹس۔ اب وہ پالیسی سازی پر اپنا تسلط مندرجہ ذیل شعبوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کر رہا ہے۔
٭ تیل، گیس اور بجلی
٭ مواصلات
٭ بینک اور مالیاتی ادارہ
٭ تعلیم
٭ صحت
٭ آبی وسائل
٭ معاشرتی ادارتی صف بندی
٭ صوبائی حکومتی نظام
٭ صوبائی اور شہری حکومتوں کو ورلڈبینک ایسی پالیسیاں نافذ کرنے کے لیے رقوم دے گا جو سیاسی طور پر متنازع خیز ہوں (مثلاً مخلوط تعلیم کا فروغ، مانع حمل طریقوں کا فروغ، مدارس میں حکومتی مداخلت وغیرہ۔ صوبہ سرحد میں اس بات پر مستقل زور دیا جائے گا کہ وہ ورلڈبینک کے منظور شدہ تعلیمی بورڈ کی اصلاحات (Education Sector Reform ESR) کو جلد از جلد مکمل طو رپر نافذ کرے۔ صوبائی حکومتوں کو امداد دینا اس بات سے بھی مشروط ہے کہ صوبے میں ایک ایسی حکومت ہو جو ورلڈبینک کی تمام اصلاحات نافذ کرنے کے لیے آمادہ ہو۔ صوبے کے وزراء ورلڈبینک کے منظور شدہ ہوں اور نوکر شاہی ہو۔ اختیارات ان افسران کے ہاتھ میں ہوں جن پر ورلڈبینک مکمل اعتماد کرسکے۔
اگر ان تمام اصلاحات کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا جائے اور ان کا نفاذ مستقل اور تسلی بخش انداز میں ہوتا ہے اور اس عمل کا جائزہ ورلڈبینک اپنے مقامی کارندوں اور ایجنٹوں کے ذریعے مستقل لیتا رہے گا تو 2003ء تا 2005ء کے عرصہ میں ورلڈبینک تقریباً 3.3 بلین ڈالر کی رقم فراہم کرے گا۔ اس میں صرف ٥٨٠بلین ڈالر سرمایہ کاری کے زمرہ میں آتے ہیں، 2.7 بلین ڈالر ان تنظیمی تبدیلیوں پر خرچ کیے جائیں گے جن کے ذریعے ورلڈبینک کی بالادستی پالیسی سازی کے عمل پر مسلط کی جارہی ہے۔
صوبہ سرحد کو 2003ء تا 2005ء ورلڈبینک تقریباً 100 ملین ڈالر سرمایہ کاری کی مد میں فراہم کرے گا، اصلاحات کے نفاذ کے لیے جو رقم فراہم کی جائیں گی وہ اس کے علاوہ ہے۔ صوبہ سرحد میں صرف 2 بڑے پروجیکٹس ورلڈبینک کے تحت چل رہے ہیں۔ (1) Form water Management Project جس کے لیے ورلڈبینک 21.5 ملین ڈالر فراہم کر رہا ہے۔ (2) Community Infrastructure Project جس کے لیے 21.5 ملین ڈالر فراہم کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ شمالی علاقہ جات کے لیے 22.5 ملین ڈالر Mortnern Education Project کے تحت فراہم کیے جائیں گے۔
ظاہر ہے کہ یہ رقوم صوبہ سرحد میں مجموعی سرمایہ کاری کا ایک نہایت حقیر ہے۔ ان پروجیکٹس کے نتیجہ میں تناسب ہے۔ ان پروجیکٹس کے نتیجہ میں روزگار کی فراہمی یا غربت کی کمی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
ورلڈبینک(world Bank) حقیقتاً ایک امریکی تخریب کار ادارہ ہے جس کا مقصد پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کرکے ایک لبرل سرمایہ دارانہ معاشرت کو فروغ دیتا ہے۔ ورلڈبینک کی اپنی سرکاری دستاویز Country Asslstance Strategy 2003-2005 اس بات کا کھل کر اقرار کرتی ہے کہ یہ اہداف تعلیمی نظام کو سیکولر بنا کر مانع حمل طرائق کو فروغ دے کر، عورتوں کو بازار میں لاکر، تمام قومی کمپنیوں، پی ٹی سی ایل، واپڈا کے ای ایس سی، پی ایس او، نیشنل بینک اور حبیب بینک کو کوڑیوں کے مول فروخت کرکے، تیل، گیس، بجلی اور مواصلاتی شعبوں پر امریکی اور یورپی کمپنیوں کا تسلط قائم کرکے اور ملک میں سرمایہ کاری کو ناممکن بناکر حاصل کیے جائیں گے۔ ملک کے دفاعی اخراجات کم کیے جائیں گے اور ورلڈبینک اپنے مقامی ایجنٹوں کے ذریعے حکومتی مشینری پر مکمل قبضہ چاہتا ہے۔ ان تمام باتوں کا واضح اعتراف ورلڈ بینک کی دستاویز میں موجود ہے۔
صوبہ سرحد کی حکومت کو بلاتاخیر ورلڈبینک کے ساتھ تمام معاہدات منسوخ کر دینے چاہئیں، حکومتی مشینری سے ورلڈبینک کے تمام ایجنٹوں کو جلد از جلد برطرف کرنا ہماری اوّلین ترجیح ہو۔ Forum water Project Management Community Infrastructure اور Northern Education Project کا مکمل کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے لینا چاہیے۔ ورلڈبینک اور اس کے جاسوسوں کو صوبہ سے نکالے بغیر اپنانظریاتی تشخص محفوظ نہیں رکھ سکتے۔