
تحریک لال مسجد(طریقہ انقلاب اسلامی کاایک باب)
Tehreek e Lal Masjid
مرتب :امین اشعر
تحریک لال مسجد اسلام آباد تاریخ اسلامی کا ایک روشن اوردرخشاں باب ہے،تحریک لال مسجد کوئی سانحہ نہیں بلکہ مجاہدین تحریک لال مسجد نے اپنی بے مثال اورلازوال قربانیوں سے یہ بات ثابت کی کہ موجودہ دورمیں اسلامی انقلاب اوراسلامی نظام زندگی مرتب کرنے کاصحیح طریقہ کارکیا ہے۔اﷲ کے نبی محمدۖ کے بعد ہم دنیا میں کسی بھی شخصیت اورقائد تحریک اسلامی کومعصوم اورغلطیوں سے مبّرا نہیں کہہ سکتے اسی لئے ہم سمجھتے ہیں کہ تحریک لال مسجد کے مجاہدین اسلام سے بھی کچھ غلطیاں ہوئیں جن کاجائزہ انشاء اﷲ ہم اس مضمون میں بھی کریںگے۔مگرتحریک لال مسجد نے جوطریقہ کار اختیارکیا وہ اسلامی انقلاب کاصحیح طریقہ کار ہے۔اسلامی انقلاب جس طریقہ کار سے آتا ہے اس کاایک نمونہ ہم کوتحریک لال مسجد نے پیش کیا،تحریک لال مسجد کوئی سانحہ نہیں بلکہ ہماری کامیابی کا پیش خیمہ ہے۔بشرطیکہ ہم نے تحریک لال مسجدسے وہ سبق اخذکئے جو انقلابیوں کو اخذ کرنا چاہئے ۔ہم اپنی ان گزارشات کوتین حصوں میں تقسیم کریں گے۔
1) اسلامی انقلاب کیاہے؟
2) تحریک لال مسجد کیوں ایک انقلابی طریقہ کارتھا
3) تحریک لال مسجد کوکامیاب بنانے کے لئے ہمیں کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے
اسلامی انقلاب کیا ہے:
اسلامی انقلاب کا مقصدحضورۖ کے دور کی طرف رجعّت ہے۔حضرت امام حسین کے دور سے لے کر اب تک اسلامی انقلابی اس بات کادعویٰ کرتے ہیں اور اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ثابت کریں کہ حضورۖ کی ہر ہرسنت کااحیاء ممکن ہے اورنبی ۖ کے دورمیں جس قسم کی انفرادیت، جس قسم کی معاشرت اورجس قسم کی ریاستی صفت بندی موجودتھی اس کی احیاء کی جدوجہد ممکن ہے۔یہ ہے اسلامی انقلاب اوراسلامی انقلاب برپا کرنے والے ایک نظام زندگی کواکھاڑپھینک کرایک دوسرے نظام کوقائم کرنے کی جدوجہد اور جستجوکرتے ہیں۔ہم جب بھی کسی نظام زندگی کوختم کرنے اوراکھاڑپھینکنے کی جدوجہدکریں گے کسی دوسرے نظام کو کھڑا اورقائم کرنے کی کوشش کریں گے تولامحالا ہدف اورمیدان قوت اوراقتدارکاادارہ اورمیدان ہوگا یعنی جہاں کشمکش ہوگی وہ انتقال قوت کے اردگردکشمکش ہوگی اوراس تناظرمیں اگرہم دیکھیں اسلامی انقلاب کامقصد اور اس کی کوشش یہ ہے کہ قوت اوراقتدارجُہلا کے ہاتھ سے لے کرعلماء اسلام کے سپردکردیاجائے اسلامی انقلاب کامقصد اوراس جدوجہد کاہدف یہ ہے کہ مسلمانوں کے تمام معاملات خواہ وہ انفرادی زندگی سے تعلق رکھتے ہوں خواہ وہ اجتماعی زندگی سے تعلق رکھتے ہوں خواہ وہ سماجی زندگی سے تعلق رکھتے ہوں اورخواہ وہ سیاسی اورریاستی زندگی سے تعلق رکھتے ہوں ان کا اقتدار اقتداراعلیٰ علماء کے ہاتھ میں دے دیاجائے اورعلماء ذمہ دارہوجائیں، مسلمان معاشرے، مسلمان ریاست اورمسلمان گھرانے کی سیادت اورقیادت کے کیوں۔کیوں کہ اسلام بنیادی طورپرایک علم ہے اوراسی لئے ہم نے غیراسلام کوجاہلیت کہا اورغلبہ دین کامقصد غلبہ علماء کے علاوہ اورکچھ نہیں غلبہ دین کامطلب ہے علماء کاغلبہ ہواوراقتدار ان کے ہاتھ میں ہو کیوں کہ علماء ہی توہیںجواس کے مکلف ہیں اوران کے اندر یہ استطاعت ہے کہ وہ فیصلے قال اﷲ اورقال رسولۖ کی بنیادپرکریں اورکوئی دوسرا شخص نہ اس کامکلف ہے نہ اس کاذمہ دارہے۔اسی لئے حضورۖ نے فرمایا علماء میرے وارث ہیں۔لہٰذا یہ بات جائز نہیں اورانقلاب اسلامی کے لیے سم قاتل ہے کہ اقتدارکاغیر علماء کے پاس مرتکزہوجائے لہٰذا اسلامی انقلابی امام حسین کے وقت سے لے کر آج تک یہ کوشش کرتے ہیں کہ اقتدارمنتقل ہوغیرعلما ء سے علماء کے ہاتھ میں زندگی کے ہرشعبہ میں علماء اسلام ہی غالب اورفیصلہ کرنے والے ہوں یہ ہے اسلامی انقلاب کامقصد، اس مقصد کوحاصل کرنے کے لئے جوطریقہ کاراختیارکیاجاتاہے اورکوشش کی جاتی ہے کہ عامتہ النّاس کے انفرادی فیصلے بھی، اجتماعی فیصلے بھی سماجی فیصلے اورریاستی فیصلے بھی سب کے سب علماء کرام ہی کے ہاتھ میں ہوں اورتمام فیصلے قرآن اورسنت،قیاس اوراجتہاد کی بنیاد پر کئے جائیں۔اب اس وقت اس انقلاب کوبروئے کارلانے کے لئے ہمارے سامنے جوسب سے بڑی روکاوٹ ہے وہ ہے دستور،پاکستان کادستور شروع دن سے ایک خالص سیکولراورغیراسلام دستورہے اس کے اندرایک شق شامل کردی ہے کہ ہم اﷲ تعالیٰ کی حاکمیت کومانتے ہیں وغیرہ یہ شق معطل ہے اورحقیقتاً تاریخ کے کسی حصہ میں یا کسی ایک دن بھی ایسا نہیں ہوا جب معاشرتی یاریاستی فیصلے قرآن و سنت کے مطابق ہوئے بلکہ ہمیشہ علماء اور دینی قوتوں کوعضومعطل کے طورپر رکھا گیا اور کبھی بھی نظام اقتدارمیں علماء اسلام نے وہ کردارادانہیں کیا جس کے نتیجے میں شرع محمدۖ اورشریعت اسلامی غالب آئے۔لہٰذا جوطریقہ کاراسلامی جماعتوں نے اورجوطریقہ کارمدارس دینی علوم نے اپنایا ہے وہ ایک غلط طریقہ کار ہے انقلابی نقطہ نگاہ سے غلط اس لحاظ سے کہ انہوں نے اس دستوراوراسی ریاستی نظام کاسہارا لیا اوراس دستوراوراس ریاستی نظام سے یہ توقع باندھی کہ اس نتیجے میں غالب آئیں گے علماء اورغالب آئے گی شریعت اسلامی ظاہر ہے کہ یہ ایک ناممکن بات ہے۔یہ ناممکن بات اس لئے ہے کہ یہ جوموجودہ دستور بناہے اس کی بنیادالحادسیکولرازم اورپلورل ازم(Pluralism) کے اوپر ہے اس دستورکے جوماخذات ہیں ان میں فرانس کا مفکرروسو، انگلستان کالادین مفکرلاک اورامریکہ کاجیفرسن وغیرہ شامل ہیں۔جس وقت انگریز نے١٩٣٥ ء کا ایکٹ پاس کیا تو یہ ہمارے تمام دساتیر کی چاہے وہ ہندوستان کے ہوں یا پاکستان کے ہوں ان کابنیادی ماخذیہی ایکٹ بنا اس کا مقصد ہی یہ تھا کہ ایسا معاشرہ قائم کیاجائے جویورپ اورامریکہ کے معاشرتی اورریاستی نظام کاچربہ ہولہٰذاجوطریقہ کاراسلامی جماعتوں نے اورعلماء کرام کی تنظیموں نے اختیارکیا کہ اس دستور اور اسی ریاستی نظام کے اندرنفوذ کیاجائے اوراس نفوذ کے ذریعے اس نظام باطل کواکھاڑپھینکیں اوراس کی جگہ اسلامی نظام حیات قائم کردیں وہ ایک غلط طریقہ کار ہے غیرانقلابی طریقہ کار ہے اسی طریقہ کار سے اسلامی انقلاب برپانہیں ہوتا اورنہیںہوسکتاا اس لئے کہ آپ کابنیادی مفروضہ کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے ایک غلط مفروضہ ہے اوریہ کہ پاکستانی دستورایک اسلامی دستور ہے ایک غلط بات ہے۔لہٰذا اس جدوجہد کاجوہماری اسلامی سیاسی جماعتیں علماء اسلام کی تنظیمیں ریاست اورریاست کے نظام سے مصالحت کی بنیاد پرکررہی ہیں اس کا نتیجہ غیراسلامی نظام کے استحکام کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں نکلتا۔جمہوری عمل سے یہ توقع رکھنا کہ اس کے نتیجے میں عوام کی رائے اسلام کی طرف رجوع ہوگی یہ ایسا ہی فعل عبث ہے جیسے کہ یہ امیدرکھنا کہ پارلیمنٹ کے ذریعے اورسیکولرعدلیہ کے ذریعے شریعت کونافذ کیا جاسکتاہے۔یہ رائے کہ جمہوریت کی بنیادکے اوپرایک صالح معاشرہ قائم کیاجاسکتاہے یہ توفارابی کی رائے ہے فارابی نے نویں صدی میں ایک مشہورکتاب لکھی ”مدینتہ الفاضلہ” اس میں اس نے بتایاکہ اگرجمہوری نظام اقتدارقائم کیاجاتاہے تواس کے نتیجے میں فضائل اورحسنات فروغ پائیں گے وغیرہ وغیرہ اسلامی سیاسی مفکرین امام ماوردی، امام الغزالی، امام محمد نے کبھی اس نقطہ نگاہ کو نہیں سراہا اور اسلامی ریاست کے نظام کے لئے جمہوری عمل وہ طریقہ نہیں ہوسکتا جس کے نتیجے میں ہم اقتدارعلماء کے ہاتھ میں سپردکردیں کیونکہ علماء تواس بات کے پابندہوں گے کہ وہ فیصلہ کریں قال اﷲ اورقال رسول کی بنیادپر اورجمہوری فیصلہ ہوتے ہیں قوم کے اغراض اورمقاصد کی بنیادپرلہٰذااجماع میں کبھی اس چیزکوقبول نہیں کیاکہ جس چیزپرعوام متفق ہوجائیںوہ اجماع ہے اجماع کے ماخذات میں سے عوام کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں۔اسلامی نظام زندگی میں عوام کوتویہ حق حاصل ہی نہیں ہے کہ وہ فیصلے کریں عوام کاتوسرے سے یہ مقام ہی نہیں ہے کہ وہ حق اورباطل کی تشریح وتفسیر کریں وہ شارع محمدۖ کے مرضی کے مطابق فیصلہ کرنے کے اہل ہی نہیں ہیں۔جب اسلامی سیاسی جماعتوں کی دعوت لوگوں کے مسائل حل کرنے کی حقوق کوفراہم کرنے کی اورلوگوں کی مرضی کے مطابق نظام معاشرت اورنظام ریاست کوچلانے کی ہوگی توپھرلازماًاس بات کی نفی کریں گے کہ فیصل کتاب اﷲ اورکتاب رسولۖ ہے اورفیصل وہ حکم ہے جوہم ان دونوں ماخذ علم سے اخذ کرتے ہیں کیونکہ وہ حکم جوعوام کے اورجمہورکے مخالف ہواتوپھر اس حکم کی دستورمیں قبولیت کی کوئی گنجائش نہیں۔لہٰذا جوطریقہ کاراسلامی سیاسی جماعتوں نے اورعلماء کرام کی دینی تنظیموں نے ریاستی نظام سے مصالحت کی بنیاد پر اختیارکیا ہے اس طریقہ کارسے اسلامی انقلاب نہیں آتااس طریقہ کارسے حضوراکرمۖ کے قائم کردہ معاشرت اوران کی قائم شدہ ریاست کی طرف مراجعت نہیںہوسکتی اوراس کاخطرناک نتیجہ ہم نے ترکی میں جسٹس اینڈڈویلپمنٹ (Justice & Development)پارٹی کے عروج کے طورپردیکھا جہاں ایک خالص قوم پرست اورخالص سیکولرجماعت اسلام کالبادہ اوڑھ کراسرائیل کے ساتھ دفاعی معاہدہ کرتی ہے اورسیکولرازم کی ہرشق کو اپنے اس اسلامی اوڑھنے سے ڈھکنے اورچھپانے کی کوشش کرتی ہے اگر ہم نے اس طریقہ کوا ختیار کیا کہ جس طریقہ کارسے فطرتاًاسلامی انقلاب برپاہوتا ہے تولازماًاس ملک کے اندراسلامی قوتیں جمہوری اوردستوری نظام ہائے حیات کاایک جزولا ینفیک بن جائیں گی اورجیسا کہ ماضی کاہمارا تجربہ ہے جہاں جہاں ہمیں اقتدارملا چاہئے وہ کراچی نظامت کی صورت میں ہویا پختونخواہ کی ایم ایم اے کی حکومت کی شکل میں عملاًہم نے وہ ہی پالیسیاں اختیارکی ہیں جوسیکولرنظام نے اختیارکیں ہیں مثلاًسرحد کی حکومت سودلیتی رہی اوردیتی رہی سرحدکی حکومت اپنے آپ کواس بات کاتابع سمجھتی تھی کہ جب تک لادین سپریم کورٹ اس بات کی اجازت نہ دے اس وقت تک حسبہ بل نافذ نہیں ہوسکتا، اور سیکولرازم اورکسے کہتے ہیں ؟
تحریک لال مسجد کاانقلابی طریقہ کار:
لال مسجدنے اس بات کوثابت کردیا کہ جس طریقہ سے اسلامی انقلاب آتاہے وہ یہی ہے کہ ادارتی صف بندی ان بنیادوں پرکی جائے جن بنیادوں کے اوپر معاشرتی اورریاستی قوت،اسلامی اقتدار کے جائزوارثین کے ہاتھ میں آجائے لال مسجد کے مجاہدین نے اس چیز کی کوشش کی کہ جو ان کا دائرہ تھا اس دائرکارکے اندر علماء اسلام کوفیصل قوت بنادیاجائے ان کی توقع یہ تھی کہ پاکستان کاہرمدرسہ اورپاکستان کی ہرمسجد لال مسجد اورجامع حفصہ ہی بن جائے گی اوراس توقع میں وہ غلط ثابت ہوئے۔لیکن اگر جو طریقہ کار لال مسجد نے اپنایاوہ طریقہ کارتمام اسلامی سیاسی جماعتیں اپنائیں اوراسی طریقہ کار کی بنیاد کے اوپر ملک کے تمام مدارس اورتمام مساجد لال مسجد بنانے کی کوشش کریں اوراس بات کی بھی کوشش کریں کہ مسلمانوں کے اجتماعی اورانفرادی معاملات علماء اسلام کے ہاتھ میں آجائیں اورمعاشرتی اورریاستی صف بندی اس بنیاد کے اوپرکریں کہ نفاذ اسلام کے لئے ہمیں سیکولرقوتوں پولیس اورفوج کی سیکولر مقنّہ کی اورسیکولرعدلیہ کی ضرورت نہ ہوبلکہ اسلامی انقلابی مراکز جوکہ مساجد اورمدارس کے علاوہ اورکچھ نہیں ہوسکتے ان کے سامنے سیکولرعدلیہ اورسیکولرانتظامیہ، سیکولرمقنّہ، سیکولرپولیس اورسیکولرفوج بے دست وپاہوجائے ہم نے تحریک لال مسجد سے یہ نتیجہ اخذکیا اور ہم نے یہ طے کیا کہ تحریک لال مسجد کوکامیاب بنائیں گے۔جمہوری طریقہ کوترک کرکے ہم وہ انقلابی طریقہ اختیارکریں گے کہ جس کے نتیجے میں محلہ محلہ اورگلی گلی میں علماء کی قیادت برسرپیکار ہواس کے اردگردعوام الناس جمع ہوںاوراس کی ہی بنیاد پرقوت اور اقتدار کاانتقال ہویعنی سیکولر قوتوں کے ہاتھ سے علماء اورزعماء اسلام کے ہاتھ میں قوت اوراقتدارمنتقل ہوجائے۔تحریک لال مسجد کامیاب اسلامی انقلاب کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔تحریک لال مسجد کوئی سانحہ نہیں اس کے اوپر آنسو بہانے کی کوئی ضرورت نہیں یہ وہ سنگ میل ہے جوہرانقلابی تحریک کی راہ میں آتا ہے ہزاروں مثالیں 19ویں صدی اور20ویں صدی کی انقلابی تاریخ سے دی جاسکتی ہیں۔جن کی بنیاد کے اوپر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جرت اورحوصلہ دکھانے کی اس نوعیت کی کارروائیوں نے انقلابی تحریکوں کو مہمیزدیا ہے چاہے پیرس کمیون1871ء نورمنڈی1862ء کی ہو یاPeters burgh کی پہلی اپرائزنگ 1905ء کی ہو، جس چیز کودہشت گردی کہاجاتاہے یہ اصل میں اس انقلابی جرات کااظہارہے جونظام اقتدارکوکھڑے ہوکر اس وقت چیلنج کرتے ہیں جس وقت پوری تحریک اس کام کے لئے اپنی تنظیم مکمل نہ کرچکی ہولیکن ان ہی مجاہدین اورانہی شہداء کی کامیابیوں کی بنیادپروہ حوصلہ پیداہوتاہے جن کی بنیادکے اوپر انقلابات برپا کئے جاتے ہیں۔تحریک لال مسجد ایک کامیاب تحریک ہے کامیاب ان معنوں میں ہے کہ جن لوگوں نے یہ تحریک برپا کی وہ اپنے رب سے اپنا وعدہ وفا کرچکے اورجوکہ ہمارے لئے پیغام چھوڑگئے وہ پیغام یہ ہے کہ
سودا قمار عشق میں خسرو سے کوہ کن
بازی اگرچہ پا نہ سکا سرتو کھو سکا
کس منہ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشق باز
اے رو سیاہ تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا
تحریک لال مسجد کے عمل سے تحریک اسلامی کے کارکنان کو۔ کیا حکمت عملی بنانی چاہئے
لال مسجدانقلاب اسلامی کی راہ میں شمع فروزاں کرگئی ہے اس کو روشن رکھنے کاکیاطریقہ ہوسکتا ہے۔تحریک لال مسجدوہ نشان راہ ہے اورانقلاب کی وہ نوید ہے جس کے پیغام کوسمجھ کراورشہداء کرام کے نقش قدم پرچل کر پہلے ہم اس ملک میں اورپھر ان شاء اﷲ پوری دنیا میں انقلاب اسلامی برپا کریں گے۔
ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ لال مسجد کامقابلہ کس سے تھا؟اس کا جواب یہ ہے لال مسجدکامقابلہ مجاہدین اسلام کی طرح عالمی سرمایہ دارانہ نظام سے تھاجونظام زندگی اس وقت پاکستان میں نافذ عمل ہے ہم اسے سرمایہ دارانہ نظام زندگی کہتے ہیں۔یہ نظام زندگی اس وقت نافذ عمل ہے اوراقتداراس کے ہاتھوں میں ہے اورکاروبار زندگی اس کے اصولوں کے تحت چل رہاہے۔علماء کرام اورتحریک اسلامی کے کارکنان کے لیے اس نظام کوسمجھنا بہت ضروری ہے اوراس کی اصل حقیقت کیاہے؟یہ کیا نظام ہے؟یہ کس چیز کی طرف لوگوں کودعوت دیتاہے؟ان تمام سوالوں کے جواب یہ ہیں کہ نظام سرمایہ داری بنیادی طورپر شہوات کوعام کرنے کانظام ہے۔یہ وہ نظام ہے جس کے نتیجے میں ملک میں اورزندگی کے ہرشعبے میں وہ قانون نافذ کیاجاتاہے جس کے نتیجے میں شہوات عام ہوں جس کے نتیجے میں حرص وہوس عام ہوجس قانون کے تحت سرمایہ دارانہ ریاستیں چلائی ہیں یہ وہ قانون ہے جوبنیادی طورکے اوپرانسان کوحیوان بنانے کاقانون ہے۔چنانچہ اس نظام زندگی کے اندرجوچیزفروغ پاتی ہے وہ ہے معاصیت اس کی کئی قسمیں ہوتی ہیں ظاہر ہے انفرادی طورکے اوپر انسان گناہ کرنے کی طرف راغب ہوتاہے۔معاشرہ غرض کی بنیادکے اوپرقائم ہوتاہے، ریاست جوہے اس کی بنیادعوام کی رائے یعنی خواہشات نفس کی بنیادپراقتدارکی ترتیب دی جاتی ہے اوران تینوں سطحوں کے اوپرسرمایہ دارانہ نظام بنیادی طورپر شہوات کوعام کرنے کانظام ہے۔انسان کو یہ بتانے کااورانسان کو اس بات پر مجبورکرنے کاپورا انتظام کیاجاتاہے وہ کہے اناربکم العلیٰ، لاالٰہ الانسان میں ہوں اپنی مرضی کامالک اورتمام چیزیں اس طرح چلیں گی جس طرح میں چاہوں گا یہ ہے سرمایہ دارانہ نظام۔اس سرمایہ دارانہ نظام میںدعوت دین کوفروغ دیناایک نہایت مشکل کام ہے کیونکہ دعوت دین بنیادی طورپررد ہے ربوبیت انسانی کا دعوت دین جس چیز کوفروغ دیناچاہتی ہے وہ ہے عبادت، وہ ہے ہدایت، وہ ہے تقویٰ’ وہ ہے احسان، اس ماحول میں جہاں قانون اوراقتدار انسان کو اس بات کی طرف بھی راغب کررہا ہے اورمجبوربھی کررہا ہے کہ وہ اپنی الوہیت کااعلان کرے اورتمام فیصلے اس کی مرضی کے مطابق ہوں دعوت دین یہاں پھیلنانہایت مشکل ہے۔دعوت دین کے سامنے جوچیز سب سے بڑی رکاوٹ بن کرسامنے آتی ہے وہ ہے ریاست یعنی نظام اقتدار، ریاست اصل نظام اقتدارہے۔فیصلہ کس کا چلے گا،حکم کس کا چلے گا کون سا قانون نافذ العمل ہوگا اورکون سی قوت اسے نافذ العمل بنائے گی۔یہ ریاست کہلاتی ہے۔لہٰذا اس نظام کے اندرگوکہ اصولی طورکے اوپرتبلیغ دین کی اجازت ہے اورانفرادی سطح کے اوپر آپ کو اس بات کی اجازت ہے کہ آپ چاہیں تونماز پڑھیں،روزہ رکھیں، تبلیغ دین کریں جو کچھ آپ کرنا چاہیں کریں عملاًاقتدار میں ان لوگوں کوشریک نہیں ہونے دیا جاتاجومعصیت عام ہونے سے روکیں۔لہٰذااس ریاست کے معاملے میں سہو نظرکرکے نظام سرمایہ داری کوکمزور نہیں کیاجاسکتا۔اس صورت میں نظام سرمایہ داری ایک ایسا نظام ہے جو معصیت کوعام کرتاہے اور اس معصیت کو عام کرنے کے لئے اس کا بنیادی مسئلہ نظام اقتدارہے۔وہ لوگ جوچاہتے ہیں کہ اس نظام معصیت کوااوراس معصیت کوفروغ عام کی مکمل حکمت عملی کوچیلنج کریں ان کے لئے ناگزیرہوجاتاہے کہ وہ اس قانون اوراس ریاست کی نفی کریں جس کی بنیاد کے اوپر یہ نظام قائم ہے۔
اس وقت ہمارے ملک میں تین قسم کی تحریکات اسلامی ہیں۔ایک وہ تحریک اسلامی ہے جواصلاح نفس کی تحریکات ہیںاس میں سب سے اہم تحریک تصوف کی تحریک ہے۔دوسری معاشرتی تحریکات وہ ہیں جو دعوت دیں کو فروغ دیتی ہیں اس میں سب سے اہم دعوت اسلامی اورتبلیغی جماعت ہے اورتیسری قسم کی تحریکات میں انقلابی جماعتیں اورمجاہدین کی تحریکات ہیںوہ جواس بات کی کوشش کرتی ہیںکہ اسلامی نظام اقتدارقائم کریں ان سب کے سامنے یہ مسئلہ پیداہوتاہے کہ یہاں یہ جوقانون ہے اوریہاں جونظام اقتدارکی ترتیب فروغ دیتی ہے انسان پرستی کویہ توفروغ دیتی ہے ہوا حرص کے عام ہونے کے رجحان کواس کے ساتھ کیا رویہ اختیارکیاجائے۔اس حوالے سے تحریکات اسلامی نے تین رویے اختیارکئے ہیں پہلا رویہ یہ کہ ہم اس نظام اقتدار کی ترتیب سے آنکھیں بندکرکے اپنے لئے کوئی جائے پناہ تلاش کرلیںاورکہیں کہ ٹھیک ہے ہمارا سمجھوتا ہے اس نظام اقتدار سے ہم اس کو نہیں چھڑیں گے ہم اس کو رہنے دیں گے جیسا کہ یہ ہے مگریہ نظام ہمیں نہ چھڑے اورہم جو کچھ کررہے ہیں ہمیں کرنے دے اور اپناطرز زندگی برقرار رکھنے کے لئے چھوڑدے، باقی ریاست کاجوبھی نظام اقتدار ہے اسے ہم قبول کر لیں گے، ہم اس سے کسی نوعیت کامقابلہ نہ کریں گے،ہم اس کو چلنے دیں گے ہم اس کے قانون کے پا بندہوں گے ہم جو کچھ کریں گے اس کے قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کریں گے کیونکہ اس ہی قانون نے ہمیں اس کی اجازت دی ہے، اس فاسق، فاجر اورظالم قانون نے جو ہمیں اجازت دی ہے اسے ہم تسلیم کرتے ہیں۔بنیادی طورپر یہ جوہماری تحریکات اسلامی جوفرد کی انفرادی اصلاح سے بحث کرتی ہیں مثلاً تصوف کی تحریک اوروہ تحریکات اسلامی جومعاشرتی اصلاح کے اوپرزوردیتی ہیں۔جیسے تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی ان کا رویہ اس سرمایہ دارانہ ریاست کے بارے میں یہ ہی ہے ان تحریکات نے اپنے لئے جائے پناہ اپنے لئے محفوظ کرکھی ہے اور اس جائے پناہ کے اندر وہ اپنا طرززندگی فروغ دیتے ہیں۔
دوسرا رویہ جو ہم نے اختیار کیا ہے ہماری خصوصاً ہماری پارلیمانی اور جمہوری اسلامی جماعتوں نے اختیارکیا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اسی سرمایہ دارانہ نظام کے اندر عوام کی مددسے قبضہ حاصل کرلیں گے اور اسی قانون کوعوام کی رائے کی مطابق تبدیل کرکے سرمایہ دارانہ نظام کواسلامیا لیں گے چنانچہ ہماری جو دعوت اورپیش رفت ہے وہ اسی سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے اور اس کی حاکمیت تسلیم کرتے ہوئے اس کے مخلص ترین کارکن بن کر اداکریں گے جماعت اسلامی پاکستان بنیادی طورپر اس دوسرے رویے ہی کواپنائے ہوئے ہے اور اس کے نتیجے میں پچھلے2002ء سے لے کر2007ء تک جماعت اسلامی کو دوقسم کی کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں۔ایک بہت بڑی کامیابی یہ تھی کہ ہم نے ایم ایم اے قائم کی اور اس میں پاکستان کی بڑی اسلامی جماعتیں شامل تھیں اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ اس ہی پارلیمانی کافرقانون کے اندر ایک اسلامی طاقتور آواز ابھری اور اس کے نتیجے کے طورپر ہم نے سرحد اور بلوچستان کے اندرحکومتیں قائم کیں اورکراچی کے اندربھی ہم نے حکومت قائم کی اور پانچ سال تک کسی نہ کسی حد تک اس نظام میں شرکت کی کہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے ہم دینی جذبے کوفروغ دینے کی کوشش کریں گے اور یہ جو سرمایہ دارانہ نظام شہوات اورمعاصی کو فروغ دیتا ہے اس کو کمزور کریں گے یہ دوسرا طریقہ کاررہا۔تیسرا طریقہ یہ تھا کہ ہم اس سرمایہ دارانہ نظام کو رد کردیںاور نظام زندگی کوناجائز اورحرام سمجھ کر ایک ایسا نظام اقتدار قائم کریں جس کا محور اورمرکزمسجد اور مدرسہ ہو ،لال مسجد اس ہی نظام اقتدار کو قائم کرنے کی ایک درخشاں مثال ہے لال مسجد کوئی سانحہ نہیں اورکسی مظلومیت کاکوئی واقعہ نہیں۔ہماری پہلی دونوں کوششیں جس کے ذریعے ہم سرمایہ دارانہ نظام کے اندر شمولیت کے ذریعے اسلامی اقدار کوفروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں تاریخ نے ثابت کردیا ہے کہ اس سے وہ مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے جس کے لئے ہم نے یہ دونوں حکمت عملیاں اپنائی یہاں معاصی عام ہوتے ہیں اہل دین کارویہ اور اہل دین کی شمولیت حاسدانہ اور حریصانہ طرز زندگی میں بڑھتا چلا جاتاہے۔اوروہ دائرہ جس کے اندر اسلامی روحانیت اوراسلامی اخلاقیات فروغ پاتی ہیں وہ محدود سے محدود ہوتا چلاجاتا ہے۔لہٰذا وہ کوششیں جو اس نظام اقتدار سے آنکھیں بند کرکے اپنے لئے چند محفوظ مقامات کو تلاش کرلینا اصل میں اس نظام کو چیلنج نہیںکرتیں اس کے نتیجے میں معاصی اورشہوات کاغلبہ روادار رہتا ہے اس میں کسی سطح کے اوپرکمی نہیں آتی ۔جہاں تک اس سرمایہ دارانہ نظام کے پارلیمانی اورجمہوری اداروں میں شرکت کاتعلق ہے اس کے نتیجے میں بھی سرمایہ دارانہ نظام معطل نہیںہوتا مثلاً ہم نے2002ء سے 2007ء تک حکومت کی اوراسی دوران کراچی میں بھی ہمارے پاس اقتدار رہا اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے سرمایہ دارانہ نظام کو جوکارکن فراہم کئے یہ سرمایہ دارانہ نظام کے روایتی کارکنان سے زیادہ مخلص اور دیانت دار تھے لیکن ان کے کام کے نتیجے میں شہر کراچی میں یاسرحدمیں دین کا فروغ نہ ہوسکا، ہمارے اقتدار کے نتیجے میں دینی روایات مستحکم نہ ہوسکیں جس سے ماحول روحانی فضائل سے معمور ہوجاتا اورغلبہ دین کی کوئی صورت پیدا ہوجاتی اس کے برعکس ہم سرمایہ داروں کی زبان بولنے لگے اورہماری یہی اسلامی جماعتیں PluralismاورToleranceاورHuman Rightsاور وہ تمام اخلاق خبیثہ جو لاالٰہ الانسان کے فاسد کلمہ سے نکلتی ہیں کو اسلامی جوازدینے کا ذریعہ بننے لگے لہٰذاجس ایجنڈے کے اوپر آج اسلامی جماعتیں اپنے آپ کو پاتی ہی اس میں اورسیکولرجماعتوںکے ایجنڈے میں کوئی فرق نہیں رہ گیا ہماری سب سے بڑی اسلامی جماعت جمعیت علماء اسلام اس کافر حکومت میں شریک رہی ہے۔اوروہ اس نظام میں پوری کی پوری ملوث ہے جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے وہAPDM کاحصہ رہی ہے اورAPDM کامنشور خالصتاً حقوق انسانی،Tolerance, Pluralism اور جمہوریت کا ایجنڈا ہے جوکسی بھی لبرل اورقوم پرست جماعت کا ہے۔ایم ایم اے کاشیرازہ بکھرگیا، افسوس کامقام یہ ہے کہ ہماری اسلامی جماعتیں اپنے پلیٹ فارم سے ایک دوسرے کوگالیاں دیتی ہیں۔
لہٰذا پارلیمانی جمہوری سرمایہ دارانہ نظام میں شرکت کے ذریعے اسلامی اقدارفروغ نہیں پاتیں وہ لوگ جوسرمایہ دارانہ نظام کے اندر اسلامی عصبیت کے غلبے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ خودسرمایہ دارعقلیت اور اس کی روحانیت سے متاثرہوکراس مغالطے میں گرفتار ہوجاتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کی اسلامی شکل بھی ممکن ہے اور اسی اسلامی شکل کوبرپاکرنے کے نتیجے کے اندر خواہش نفسانی کے فروغ کواسلامی جواز فراہم کیا جاتاہے اورانقلاب اسلامی جس سے مراد ہماری یہ ہے کہ نبیۖ کے دور کی طرف رجوع ہو اورتمام سنتیں عام ہوں جونبی ۖ سے روایت کی گئی ہیں یہ ہے انقلاب اسلامی اور یہ ایک مسلسل عمل ہے۔انقلاب اسلامی کوئی واقعہ نہیں ہے اس وقت اس ملک میں آرہاہے، برپا ہے اوربرپا انہی معنوں میں ہے کہ مختلف سطح پر مختلف لوگ سنتوں کے احیاء کے لئے تن، من،دھن لگائے ہوئے ہیںاوریہ انقلاب اسلامی اسی وقت آئے گا جب نظام اقتدارماتحت ہوجائے گا علماء اسلام کے، کیونکہ اسلام کے اندر نفس کی پیروی نہیں ہے۔علماء اسلام انبیاء اسلام کے وارثیں جو شرع مطہرہ کی وہ تعبیر کرتے ہیںجوان کے نفس کی خواہشات کی پیرو نہیں ہوتی بلکہ شارع کی مرضی کی طرف ہوتی ہے۔ لہٰذاانقلاب اسلامی کوآگے بڑھانے کامطلب ہی یہ ہے کہ عوام اپنی ذاتی اغراض سے سہو نظرکرکے ہدایت کیے طلب گارہوجائیںاورعلماء اسلام کواپنی قیادت کے لئے قبول کرلیں یہ ہے انقلاب اسلامی، اورعلماء اسلام کو قیادت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے تیارکرنا اورعوام کوعلماء اسلام کی ہدایت قبول کرنے کے لئے تیارکرنا یہ تھاتحریک لال مسجد کا مقصد اورکام اوراس مقصد اور کام کوآگے بڑھا کرہم انقلاب اسلامی کی طرف پیش رفت کرسکتے ہیں۔اس کام کو آگے بڑھانے کے لئے چارکام ہمیں کرنے ہوں گے۔سب سے پہلا کام انقلاب اسلامی کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لئے ضروری ہے کہ عوام کوعلماء اسلام کے ماتحت جمع کیاجائے اورعلماء اسلام کوقیادت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے تیارکیاجائے یہ کام کس طریقہ سے ہوگا۔سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد ہو اورسب سے پہلے اہل دین کی صفوں میں اتحادہو۔ایم ایم اے کاقیام ہمارے لئے بہت مبارک بات
اسی لئے تھی کہ اس میں تمام فرقوں اورتمام مسلکوں کی دینی جماعتیں متحدتھیں لیکن یہ اتحاد صرف ایک بالائی اتحاد تھا اور یہ اتحادعوامی سطح کے اوپرہم کبھی قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے، یعنی عوامی سطح پراتحاد نہ ہوسکایعنی نچلی سطح پرگروہ بندی وہ ہی رہی جیسے کے ایم ایم اے اتحاد سے پہلے تھی اسی وجہ سے جب تحریک لال مسجد برپا ہوئی تواس کودیوبندی تحریک سمجھا گیا اورغیردیوبندی طبقے میں تحریک لال مسجد پرتفہیم نہ ہونے کے برابرتھی یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ دیوبندی علماء نے بھی ساتھ نہ دیا۔بہرصورت بریلوی مکاتب فکر، شیعہ مکاتب فکر اوراہل حدیث مکاتب فکر اس تحریک سے بالکل لاتعلق رہے جیسے کہ ان کا اس سے کوئی تعلق ہی نہ ہو، لہٰذا اگرعلماء اسلام کوقیادت سنبھالنی ہے توسب سے پہلے محلے اورمسجد کی سطح کے اوپر انہیں اتحاد کرنا پڑے گااورکشمکش ان قوتوں سے کرنی پڑے گی جواس ملک میں اسلام کوفروغ دینانہیں چاہتے ۔جب تک لڑائی آپس میں ہے اس وقت تک معاشرتی کامیابی انہی لادین اورسیکولرجماعتوں کوحاصل رہے گی جولادینیت کوفروغ دیناچاہتے ہیں۔
یکجا نہ جوہوسکیں جومحمدۖ کے نام پر
لعنت خداکی ایسے خواص وعوام پر
مسجداورمدرسہ وہ مقام ہے جہاں یہ اتحاد بین المسلمین عوامی سطح پرقائم کیاجاسکتاہے یعنی پہلی سطح جس پر علماء اسلام کااقتدارقائم کیاجائے اور اتحادقائم کیاجائے وہ ہے مسجد اورمدارس، دوسری سطح جس کے بارے میں لال مسجدہمیں یہ پیغام دیتی ہے وہ یہ ہے کہ علماء اورمساجدکی بنیادکے اوپرمعاشرتی اقتدار کی ترتیب کی کوشش کی جائے یہ کافی نہیں ہے کہ علماء محض مشاورت Advisor کاکردار اداکریں بلکہ جس طریقہ سے لال مسجد میں دارالافثیاء اوردارالقضاء قائم ہوئے تھے اورجس طریقہ سے عوام کو علماء کے فیصلوں کوقبول کرنے کے لئے تیارکیاگیاتھا اس منظم تحریک کے ذریعے اسلامی جماعتیں مساجد کوبنیاد بناکرنظام قضاء اورنظام افتاء کااجراء کریں اوراسلامی ریاست کوعملاًمسجد مسجد قائم کردیں اس لئے کہ اسلامی ریاست کے قیام کامقصد صرف علماء کے اقتدارکاقیام ہے۔معاشرتی سطح پرہمارے بہت سے ایسے علاقے موجود ہیں۔جہاں عملاً علماء کااقتدار قائم ہے، جہاں علماء کے فتاویٰ اورعلماء اسلام کے فیصلے کافر قانونی فیصلوں سے زیادہ اثرانگیز ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بتدریج افتاء اورقضاء کے دائرہ کارکووسیع کریں آپس میں مربوط کریں اورمنظم کریں اوریہ کام ہم اسی وقت کرسکتے ہیں جب ہم یہ کام دانش مندی سے کرنے کی کوشش کریں اورکوشش ہماری یہ ہونی چاہئے کہ محلے کی سطح کے اوپراقتدار یعنی فیصلہ کرنے کی صلاحیت اورفیصلہ کرنے کامحوراورمرکز اس محلے کی مسجدہواوراس محلہ کامدرسہ ہو، یہ بات فطری ہوجائے کہ مسلمان اپنے معاملات کے حل کے لئے علماء سے رجوع کریں اوران کے فیصلوں کوقبول کریں، علماء کے پاس وہ وسائل بھی ہوں جن کے نتیجے میں وہ جوفیصلے کریں وہ معاشرے میں نافذالعمل بھی
بتدریج ہوتے جائیں۔ اس طریقے سے ہم اسلامی اقتدارکومحلہ کی سطح پر مرتب کرنے کی اہلیت حاصل کرلیں گے۔
اس نظام اقتدار کومعاشی زندگی میں پھیلانا یہ بھی نہایت ضروری ہے۔ اس لئے کہ سرمایہ دارانہ نظام معصیت کوپھیلانے کے لئے معاش ہی کواستعمال کرتاہے یعنی جس ذریعے سے وہ معصیت اورحرص وہوس کوپھیلاتا ہے جس طریقہ سے وہ انسان کے اندریہ خواہش پیدا کرتا ہے کہ وہ تمتع فی الارض زیادہ سے زیادہ کرے وہ معاشی مجبوریاں ہی ہیں جس میںسب سے اہم چیزقیمتوں کااضافہ ہے۔اس وقت ایک آدمی جس مصیبت میں مبتلا ہے قیمتوں کے اضافے کی وجہ سے اس کا اندازہ ہرکسی کوہے لہٰذا معاشی سطح کے اوپر مسجد کے دائرہ کارکووسیع کرنے علماء کے اقتدارکومحکم کرنے کی ایک بہت اہم بنیادی ضرورت ہے۔اس وقت اس ملک میں ٨٠ سے ٩٠ فیصد کاروباربالکل حلال ہے ان معنوں میں حلال ہے کہ وہ کاروبار نہ سودکے بازارFinancial Marketاور سٹے کے با زارCapital Market سے کوئی تعلق رکھتا ہے۔اس کاروبار کو منظم کرنا، مہمیز دینا اوران کاروبارکو بڑھانے کے مواقع فراہم کرنے کے لئے مسجد بہت اہم کرداراداکرسکتی ہے۔اسی صورت سے معاشی سطح کے اوپر محلے کے بازاروں کے اندرقیمتوں کے اتاراورچڑھائو گرفت میں لینے کے لئے محتسب کاشعبہ ہماری اسلامی تاریخ میںعام ملتا ہے،مسجد کی سطح کے اوپر ہم قائم کرسکتے ہیں۔ بالخصوص تاجربرادری میں اورکاروباری حضرات کے اندر علماء اسلام کااثرورسوخ کم نہیں ہے۔ اگر علماء اس طرف توجہ فرمائیں تویہ بالکل ممکن ہے کہ ملک کے چند علاقوں کے اندر قیمتوں کے اتاراورچڑھائو کے ضمن میں بھی اورحلال رزق کے فروغ کے سلسلے میں بھی مسجد ایک ادارتی کردار اداکرسکتی ہے۔اس کی بہترین مثال علماء ایران نے فراہم کی جس کے نتیجے میں اسلامی انقلاب مرتب کرلیا گیاجبکہ شاہ ایران کی حکومت ذرا سی بھی متزلزل نظرنہیں آتی تھی اوراسی ترتیب اقتدار علماء کے نتیجے کے اندر جس وقت ایران میں اسلامی انقلاب برپا ہوا اس وقت حکومت بھی بے بس تھی فوج اور مقنّہ بھی بے بس تھی اوروہ قانون بھی بے بس تھا اورشاہ ایران بھی بے بس تھا اور ان کا سرمایہ دارانہ حاکم امریکہ بھی بے بس تھا اور شاہ کے خلاف نعرہ ”مرگ برامریکہ، امریکہ شیطان بزرگ است”ہربازار، ہر محلے اور ہربستی اورہرمسجد سے گونج رہاتھا۔یہ کیوں ہوا اور کیسے ہوا؟۔۔ علماء ایران نے ایک کافرحکومت کے ہوتے ہوئے عملاً ریاستی اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا یہ کام ہم بھی کرسکتے ہیں یہ کام انقلاب کی راہ ہے اورانقلاب کی راہ کی ایک درخشاں مثال تحریک لال مسجد ہمیں فراہم کرتی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ جومثال لال مسجدنے قائم کی اس کوہم اچھے طریقے سے سمجھیں، جہاں تک ہمت اورحوصلے کاتعلق ہے۔ ہمارے مدارس علوم دینیہ کے اندر وہ حوصلہ اور ہمت موجود ہے۔ جس کی بنیاد کے اوپر ہم ایک لمبی لڑائی سرمایہ داری کے سرخیل امریکہ سے اس ملک میں گلیوں گلیوں،،مسجد مسجد ،چپہ چپہ لڑکر جیت سکتے ہیں اور غیراسلامی حکومت کاوجوداورغیراسلامی قانون کاوجود ناممکن بناسکتے ہیں۔ یہ لال مسجد کاانقلابی پیغام ہے اس
پیغام کواگر ہم قبول کریں ، توہمارے نوجوان اورہمارے طلبہ قبول کریں تو انقلاب اسلامی کی ترتیب ہمارے لئے آسان سے آسان ترہوتی چلی جائے گی ضرورت اس چیز کی ہے کہ ہم اپنے اس عزم کااعادہ کریں اوراپنے اس فرض کوپہچانیں کہ انقلابی عمل کوآگے بڑھانے کے لئے ہمارے اندرہمت بھی ہے اورہمارے اندر حوصلہ بھی ہے۔
تم جو گرجو تو تھرائیں سات آسمان
تم بڑھو توقدم چومیں سیل رواں
تم جوٹھہرو تو ثابت ہوکوہِ گراں
دشمنوں کے لئے تم لہو تباں برقِ سپاہ
دوستوں کے لئے نظرہے جسم وجاں
ہم قدم ساتھیوں ہم نوادوستو
میری آواز پرتم بھی آوازدو
میری آواز پرتم بھی آواز دو
یونہی بڑھتا رہے کارواں دوستوں
مصطفی مصطفیٰ مصطفیٰ دوستوں