
طالبان عالی شان کا انقلاب اسلامی
Taliban Aalishan ka Inqilab e Islami
مولانا محمد احمد حافظ
خطۂ افغانستان تاریخِ عالم میں ایک نمایاں مقام کا حامل ہے۔ صدیوں بلکہ ہزاروں برس قدیم تاریخ رکھنے والا یہ خطہ گوناگوں طبعی اور جغرافیائی خصوصیات، اپنے جری اور بہادر باشندوں، اولوالعزم فاتحین اور اپنے منفرد طرزِ بود و باش کے سبب تاریخ کے طالب علم کے لیے ہمیشہ دل چسپی کا باعث رہا ہے۔
افغانستان میں اسلام اپنے اوائل میں ہی داخل ہوگیا تھا، جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں متعدد جرنیل صحابہ نے اس کے ایک بڑے حصے کو اسلامی فتوحات میں شامل کرکے یہاں اسلام کا پرچم بلند کیا۔ تب سے اب تک افغانوں کا اسلام کے ساتھ نہایت مضبوط رشتہ قائم ہے۔ اسی خطے سے اولوالعزم مسلم فاتحین وابستہ رہے جن کے لشکروں نے ظلمت کدۂ ہند میں داخل ہوکر حق اور ہدایت کے پرچم لہرائے۔ شہاب الدین غوری، محمود غزنوی، بابر و ہمایوں، احمد شاہ ابدالی اسی خطے کے فرزند ہیں۔
اگر ماوراء النہر کا خطہ علم و علماء کے لیے معروف تھا تو افغانستان کا خطہ علم کے ساتھ ساتھ تصوف کا بھی مرکز رہا۔ نقش بندی، مجددی، قادری اور چشتی سلسلوں اور خانوادوں نے یہاں کے باشندوں میں تصوف کی جو خدمات انجام دیں وہ کسی مؤرخ کی نگاہ سے اوجھل نہیں۔
غیرت اور فقر یہاں کے باشندوں کا اثاثہ ہے اور شریعت و تصوف کے اتصال نے اسے مزید سہ آتشہ کردیا ہے۔ چناں چہ ابلیس کو اقبال کی معرفت کہنا پڑا
افغانیوںکی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
ملّا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو
مگر دنیا کی کوئی طاقت نہ مُلّا کو افغانستان کے کوہ و دمن سے نکال سکی اور نہ ہی اس ملک کے پیکرانِ فقر و غیرت کے بدن سے روحِ محمد نکال سکی۔
متعدد عالمی طاقتیں اس خطے کے درپے ہوئیں مگر شکست وریخت ان کا مقدر بنی۔ برطانوی سامراج نے یہاں مات کھائی۔ روسی کمیونزم کا ہمالیہ یہاں زمین بوس ہوا اور آج سرمایہ داری کے علم بردار امریکا کا بت تیزی سے اپنے قدموں میں آرہا ہے۔
افغانستان کا جغرافیہ:
دنیا کے بعض ملکوں پر یہ بات صادق آتی ہے کہ تاریخ، سیاست اور لوگوں کی خاصیت کے تعین میں ان کے جغرافیائی حالات نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ افغانستان اپنے محل وقوع کے اعتبار سے بہت منفرد ہے۔ وہ ایران، بحیرۂ عرب، پاکستان، وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے درمیان واقع ہے۔ چاروں جانب سے خشکی میں گھر اہوا یہ علاقہ تاریخی طور پر مختلف خطوں اور علاقوں کے باشندوں کی گزرگاہ بھی رہا ہے۔
موجودہ افغانستان کی تاریخ میں احمد شاہ ابدالی درانی کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ جب ١٧٤٧ء میں لویہ جرگہ نے احمد شاہ ابدالی کو اپنا بادشاہ چن لیا تھا۔ انہیں افغان قوم کا باپ کہا جاتا ہے۔ برصغیر میںمغل جب زوال آشنا ہورہے تھے تو ایک وقت میں احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان کے پایہ تخت پر قبضہ کرلیا تھا۔ مگر جلد ہی اسے چھوڑ دیا۔ احمد شاہ کے بیٹے تیمور شاہ نے ١٧٧٢ء میں قندھار کی بجائے کابل کو اپنا دارالحکومت بنایا۔ ١٧٨٠ء میں وسط ایشیا کے سب سے بڑے حاکم امیر بخارا سے ایک معاہدہ طے کیا جس کی رو سے دریائے آمووسطی ایشیا اور نئی افغان ریاست کے درمیان سرحد تسلیم ہوا۔
اگلی صدی میں درانیوں کے اندرونی اختلافات نے انہیں کمزور کردیا۔ جس کے نتیجے میں دریائے سندھ کے مشرقی جانب کے علاقے ان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ تاہم ایک یا دوسرا درانی قبیلہ آیندہ دو سو برس تک افغانستان میں برسر اقتدار رہا۔ 1973ء میں محمد داؤد خان نے ظاہر شاہ کو معزول کردیا اور افغانستان کو جمہوریہ قرار دے دیا۔ اس عرصے میں غلزئی اور درانی پشتونوں میں مخاصمت جاری رہی۔ جس نے افغانستان پر سوویت حملے کے بعد شدت اختیار کرلی۔
کمزور اور باہم دست و گریباں درانی بادشاہوں کو دو سلطنتوں سے بچنے کا مرحلہ در پیش رہا۔ یعنی مشرق میں انگریز اور شمال میں روس، انیسویں صدی میں برطانیہ کے وسطی ایشیا میں بڑھتے ہوئے روسی اثر و رسوخ سے ڈرتے ہوئے اور یہ محسوس کرتے ہوئے کہ کہیں روسی افغانستان پر تسلط جمانے کے بعد برطانیہ کی ہندوستانی سلطنت کے لیے خطرہ نہ بن جائیں۔ افغانستان پر قبضہ کرنے کی ٹھانی اور اس مقصد کے لیے تین بار کوشش بھی کی۔ لیکن انہیں جلد ہی احساس ہوگیا کہ جنگ کرنے کی بجائے افغانوں کو خریدلینا زیادہ آسان ہے۔ انگریزوں نے نقد رقوم دینا شروع کردیں۔ قبائیلی سرداروں کو ساتھ ملایا اور افغانستان کو اپنا خاموش تابع فرمان بنالیا۔ اس کے بعد روسیوں اور انگریزوں کے درمیان سازشوں کا نیا کھیل یاجب ضرورت سمجھی تو فوجی دبائو ڈالنے کے طریقے بھی آزمائے جانے لگے۔ اس کے بعد روس اور برطانیہ دونوں طاقتوں نے ایک دوسرے سے محفوظ فاصلے پر رہنے کے لیے افغانستان کو دونوں ملکوں کے درمیان ایک غیر جانبدار ملک بنانے پر اکتفاء کیا۔
برطانیہ نے درانیوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے کے لیے انٹیلی جنس کے افسروں کو مامور کیا، جن کی تمام تر کوشش یہ تھی کہ افغان بادشاہ کمزور رہیں اور اپنی مالی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے انگریزوں کے دست نگر رہیں۔ اسی دوران شمال میں غیر پشتون گروہوں نے کابل کی مرکزی حکومت کو اثر سے نکلنے کے لیے زیادہ سے زیادہ خود مختاری حاصل کرنے کی کوشش شروع کردی۔ شمالی مغربی ہندوستان کے انگریزوں کے تسلط میں چلے جانے کے نتیجے میں پشتون بھی کمزور ہوگئے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ پشتون برطانوی ہند اور افغانستان کے درمیان منقسم ہوگئے۔ 1891ء میں برطانیہ نے ڈیورنڈ لائن کے ذریعے جسے باقاعدہ سرحد کا درجہ دیا گیا، پشتونوں کو باہم بانٹ دیا ۔
دوسری اینگلو افغان جنگ کے بعد انگریزوں نے کابل کے تحت پر امیر عبدالرحمن کے دعوے کی حمایت کی، انہیں فولادی امیر کہا جانے لگا۔ وہ 1880ء سے 1901ء تک مقتدر رہے۔ انگریزوں نے افغان ریاست مضبوط اور مرکزی حکومت کو موثر بنانے کے لیے امیر عبدالرحمن کو مدد دی۔ انہیں ایک مؤثر انتظامیہ چلانے اور فوج منظم کرنے کے لیے انگریزوں کی طرف سے مالی امداد بھی مہیا ہوتی رہی اور فوجی امداد بھی۔ انہوں نے بغاوت پر آمادہ پشتون قبائل کو دبانے کے علاوہ شمال میں ہزارہ اور ازبک قومیتوں کی خود مختاری کو بے رحمی سے ختم کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے۔ اس نے انیسویں صدی میں نسل کشی کا سلسلہ قائم کیا۔ غیر پشتون مخالفوں کو قتل کیا اور پٹھانوں کو شمال میں زمین آباد کرنے کے لیے بھیجا تاکہ دوسری نسلی اقلیتوں کے درمیان اس کے اپنے وفادار لوگ موجود ہوں۔
امیر عبدالرحمن نے اپنے دور حکومت میں غیر پشتونوں کی 40 بغاوتیں کچل دیں۔ افغانستان کی پہلی ظالم خفیہ پولیس منظم کی۔ 1980ء کی دہائی میں کمیونسٹ حکومت نے اسی طرز پر ”خاد” منظم کی۔۔ 1987ء کے بعد مختلف قبائل میں جو خون ریزی ہوئی اس کا رشتہ امیر عبدالرحمن کی پالیسیوں سے جا ملتا ہے۔
بیسویں صدی کے اوائل میں امیر عبدالرحمن کے بعد ان کے جتنے بھی جانشین آئے وہ بڑی حد تک جدیدیت پسند تھے۔ انہوں نے 1919ء میں برطانیہ سے مکمل آزادی حاصل کرلی، ملک کا پہلا آئین بنایا اور شہروںمیں لبرل اور روشن خیال طبقہ پید اکرنے کی کوشش کی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دو افغان بادشاہ قتل ہوئے اور وقفوں سے قبائلی بغاوتیں بھی ہوتی رہیں، جو افغان حکمرانوں کی اُن مشکلات کی عکاس تھیں، جو انہیں مختلف نسلوں پر مشتمل قبائلی معاشرے کو ایک جدید ریاست میں ڈھالنے کے ضمن میں پیش آئیں۔
اس نے شاہ کو معزول کردیا اور افغانستان کو جمہوریہ قرار دے کر خود صدر کا منصب سنبھال لیا۔ سردار داؤد خان اشتراکی نظریات کا حامل تھا۔ اس کے دور میں یہاں کمیونزم کو قدم جمانے کا زیادہ موقع ملا۔سردار داؤد خان کا اقتدار افغان فوج میں موجود اشتراکی نظریات کے حامل فوجی افسران کی مرہونِ منت تھا۔ چناں چہ سردار داود خان کے دور میں کابل، قندھار، ہرات، مزار شریف وغیرہ کمیونزم کے بڑے مراکز بن گئے۔ کابل میں کمیونسٹوں کا عمل دخل زیادہ تھا۔ اس لیے جہاں ایک طرف نظریات کی تیز رفتار تبدیلی ہوئی، وہیں خواتین کو کھلی آزادی دی گئی، شراب خانے کھل گئے، لوگ قطار میں لگ کر روٹی لینے لگے، اشتراکی نظام بار آور ہونے لگا۔ اس ماحول میں افغانستان میں اسلامی تحریک مزاحمت کا آغاز ہوا جس کی قیادت فی الوقت گل بدین حکمت یار، برہان الدین ربانی اور احمد شاہ مسعود کررہے تھے۔ سردار داود خان نے اسلامی تحریک مزاحمت کو کچلنے کے لیے فوج کے اشتراکی افسران اور ببرک کارمل کی پرچم پارٹی سے مدد حاصل کی۔ ١٩٧٥ء میں فوج کے انہی افسران نے سردار داؤد خان کے خلاف بغاوت کردی، جنہوں نے ١٩٧٣ء میں اسے اقتدار میں لانے میں مدد دی تھی۔ خونی انقلاب برپا ہوا، سردار داود خان کو خاندان سمیت قتل کردیا گیا اور اس کی جگہ نور محمد ترہ کئی کو صدر بنایا گیا مگر انہیں بھی تھوڑے دنوں بعد قتل کردیا گیا اور حفیظ اللہ امین نے اقتدار سنبھالا، کچھ ہی عرصے میں اسے بھی قتل کردیا گیا۔ دسمبر ١٩٧٩ء میں سوویت افواج نے افغانستان پر براہِ راست حملہ کردیا اور پورے ملک پر قبضہ کرکے پرچم پارٹی کے لیڈر ببرک کارمل کو صدر بنادیا گیا۔
جہادِ افغانستان کا پہلا دور:
روسی قبضے کے بعد افغانستان میں مسلح تحریک جہاد شروع ہوئی۔ وہی قائدین جو افغانستان سے نکل کر پشاور میں آبسے تھے۔ انہوں نے مجاہد گروپوں کی قیادت کی۔ انجینئر گل بدین حکمت یار، مولانا محمد نبی محمدی، مولوی محمد یونس خالص، مولانا جلال الدین حقانی، پروفیسر عبدالرب رسول سیاف، صبغت اللہ مجددی، احمد شاہ مسعود وغیرہ افغان جہاد کے لیڈر تھے۔ ان کی کمان اور رہبری میں مختلف افغان اسلامی جماعتوں نے روس کے خلاف جہاد کیا۔
افغانستان پر روسی حملہ بلاشبہ دیگر اسلامی ممالک خصوصاً پاکستان کے لیے وارننگ تھا اور روس کے افغانستان پر قبضہ جمالینے کی صورت میں پاکستان سمیت مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے مسلم ممالک اشتراکیت کی زد میں آجاتے۔ چناں چہ جہادِ افغانستان کے دوران صرف افغانستان کے باشندے ہی روسی افواج کے خلاف برسر پیکار نہیں ہوئے بلکہ دنیا بھر کے مختلف خطوں اور ممالک سے پر جوش جذبۂ جہاد سے سرشار نوجوان اکٹھے ہونے لگے۔ ان میں بڑی تعداد عرب مجاہدین کی تھی جو سعودی عرب، یمن، کویت، مصر، سوڈان، الجزائر، لیبیا، فلسطین، شام وغیرہ سے اکٹھے ہوئے تھے۔
انڈونیشیا، ملائشیا، برما اور بنگلہ دیش سے بھی بڑی تعداد میں مجاہدین آئے۔ ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے پاکستان سے بھی بڑی تعداد میں دینی جماعتوں کے انقلابی نوجوانوں نے جہاد افغانستان میں شرکت کی۔ ان میں جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی اور سلفی جماعت کے نوجوانوں کی تعداد زیادہ تھی۔
روس افغانستان میں ١٩٧٩ء میں داخل ہوا تھا۔ یہاں اسے طویل جنگ لڑنا پڑی۔ آغاز میں اسے نہایت معمولی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن آہستہ آہستہ جہاد کی لو تیز ہوتی گئی اور افغانستان کی اسلام پسند عسکری تنظیمیں منظم انداز میں روسی افواج کے خلاف جہاد کرنے لگیں۔ اس دوران ان تنظیموں کا ایک اتحاد قائم ہوگیا۔ آپس میں ربط و تعلق، مشترکہ کمان میں روسی افواج پر منظم اور جارحانہ حملے ہونے لگے۔ اسی وجہ سے روسی افواج افغانستان کے مختلف علاقوں سے کنٹرول کھونے لگیں۔ افغانستان میں روسی افواج نے پندرہ لاکھ سے زائد افغانوں کو شہید کیا۔ ہزاروں خاندانوں کو روسی استبداد کی وجہ سے ہمسایہ ممالک پاکستان اور ایران کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔ جہاں افغان مہاجرین کے درجنوں مہاجر کیمپ آباد ہوگئے۔
پچھلی سطور میں ہم بتا آئے ہیں کہ افغان جہاد میں دنیا بھر سے اہلِ ایمان روسی پیش قدمی کی راہ روکنے کے لیے جمع ہوگئے تھے۔ ان میں مختلف رنگ و نسل اور عقیدہ و نظریہ کے حامل نوجوان تھے۔ عرب مجاہدین کی عمومی قیادت فلسطین کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے عالم اور داعی ڈاکٹر عبدللہ عزام شہید رحمہ اللہ کررہے تھے۔ ان کی تحریروں اور تقریروں نے جہاد کو نہ صرف عالمی سطح پر روشناس کرایا بلکہ عالمی جہاد کی بنیاد رکھی۔ افغانستان میں دو طرح کے مجاہدین اپنا اثر و رسوخ رکھتے تھے ایک گروہ میں مولوی محمد یونس خالص کی حزب اسلامی، مولوی محمد نبی محمدی کی حرکت انقلاب اسلامی، مولانا جلال الدین حقانی گروپ وغیرہ تھے۔
ان سے وابستہ مجاہدین جہاد میں اسلامی خلافت کے احیاء کے طور پر حصہ لے رہے تھے جب کہ صبغت اللہ مجددی برہان الدین ربانی اور انجینئر حکمت یار کی تنظیمیں جمہوری عمل پر یقین رکھتے ہوئے اپنی جدوجہد کو آگے بڑھا رہے تھے۔
١٩٨٦ء میں ہی روسی شکست کے آثار واضح دکھائی دینے لگے تھے۔ ١٩٨٩ء میں روس افغانستان سے اس حال میں شکست کھاکر واپس پلٹا کہ کابل میں اس کے حامی دھڑوں کو اپنا اقتدار قائم رکھنا مشکل ثابت ہوا۔ نجیب اللہ انتظامیہ کا اقتدار کابل کے علاوہ افغانستان کے صرف چند بڑے شہروں میں رہ گیا تھا۔ اِدھر مجاہد تنظیموں میں کابل پر صرف اپنے قبضے کی خواہش نے آپس کی خوف ناک جنگ چھیڑ دی اور افغانستان جو پہلے روسی فوج کی جارحیت سے زخم زخم تھا، اب خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگیا۔ یہ صورت حال ان مخلص مجاہدین کے لیے سوہان روح تھی جنہوں نے جہاد افغانستان میں اسلامی خلافت کے قیام کے لیے حصہ لیا تھا۔ وہ کڑھ رہے تھے مگر ان کی قیادتیں آپس میں مصروفِ جنگ تھیں۔ افغانستان میں اس خانہ جنگی کو پاکستان، تاجکستان، ازبکستان کی خفیہ ایجنسیوں نے بھی اپنے اپنے مفادات کے لیے بڑھاوادیا۔ پاکستان انجینئر حکمت یار کو سپورٹ کررہا تھا۔ ایران شیعہ رہنما عبدالعلی مزاری کو جب کہ تاجکستان احمد شاہ مسعود کو اور عبدالرشید دو ستم کو ازبکستان مدد فراہم کررہا تھا۔ چھوٹے چھوٹے کمانڈروں نے اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی عمل داریاں قائم کرلی تھیں۔ جگہ جگہ پھاٹک لگادیے گئے جہاں سے مخصوص بھتہ دیے بغیر گزرنا ناممکن تھا۔ چوری ڈکیتی، اغوا اور قتل عام ہوگئے۔ لوگوں کے اموال محفوظ تھے نہ عزت و ناموس… خواتین کو گھروں سے اٹھالیا جاتا تھا اور ان کی آبروریزی کی جاتی۔ حقیقتاً جنگل کا قانون قائم ہوگیا تھا۔
شاہراہوں کا یہ عالم تھا کہ صرف اسپین بولدک سے قندھار تک بیس پھاٹک تھے۔ جہاں سے مسافروں اور سامان منتقل کرنے والے ٹرک مالکان کو ٹول ٹیکس دینا پڑتا تھا۔ اسی پر ملک کے دیگر حصوں کو قیاس کیا جاسکتا ہے۔ طوائف الملوکی اس قدر بڑھ گئی تھی کہ بہت سے افغان باشندے جو روس کے نکل جانے کے بعد اپنے گھروں کو واپس جانے لگے تھے، انہیں پھر سے پڑوسی ملکوں کے مہاجر کیمپوں میں آباد ہونا پڑا۔
کابل جہاں روسی افواج کی واپسی تک کسی مکان کی اینٹ تک نہ اکھڑی تھی۔ انجینئر حکمت یار، احمد شاہ مسعود، عبدالعلی مزاری کی آپس کی خانہ جنگی کی وجہ سے آدھے سے زیادہ کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا تھا۔
شکست روس کے بعد افغانوں کو خانہ جنگی کا جو کڑوا پھل ملا وہ ہر گز اس کی توقع نہیں کررہے تھے… بہت سے مجاہدین اور بنیاد پرست کمانڈر اس صورت حال سے بد دل ہوکر گھروںمیں بیٹھ گئے اور بہت سے مجاہدین جن کی دینی تعلیم نامکمل رہ گئی تھی، وہ مدرسوں میں جاکر اپنی دینی تعلیم مکمل کرنے لگے۔
عرب مجاہدین کی بھی ایک بڑی تعداد اپنے اپنے ملکوں کو واپس چلی گئی یا قبائلی علاقوں میں قیام پذیر ہوگئی۔
طالبان انقلاب
ملا عمر مجاہد، ملا غوث، ملا محمد ربانی، ملا حسن رحمانی، ملا عبدالجلیل… یہ سب افغان جہاد میں شریک رہے تھے اور پہلے سے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ یہ لوگ جب آپس میں ملتے اور باہم بات چیت کرتے تو ڈاکؤں کے زیرِ تسلط رہنے والے لوگوں کے مصائب و آلام کے بارے میں بات چیت کرتے۔ یہ سب ہم خیال تھے اور آپس میں رفاقت پر آمادہ تھے۔ چناں چہ فیصلہ ہوا کہ کچھ کرنا چاہیے۔ ملا غوث کے بقول ”ہم دیر تک بیٹھے غور کرتے رہے کہ اس افسوس ناک صورت حال کو کس طرح تبدیل کیا جاسکتا ہے؟ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں؟ کبھی سوچتے کہ ہم ناکام رہیں گے۔”
جنوبی افغانستان کے سب ہی مجاہدین انہی مسائل پر غور کرتے رہے کہ حالات بدتر سے بدترین ہورہے تھے۔ اس لیے ہم ملا عمر سے ملنے قندھار آئے اور ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔
ملا محمد عمر مجاہد طوائف الملوکی کے اس دور میں سیاست اور خانہ جنگی سے الگ ہوکر قندھار کے قریب اپنا مدرسہ چلانے لگے تھے۔ ان کے پاس کئی نوجوان طلبہ تعلیم کی غرض سے قیام پذیر تھے۔ انہوں نے اپنے پرانے مجاہد ساتھیوں اور طلبہ سے مشاورت کی اور اپنے ملک میں تبدیلی لانے کی ٹھان لی۔
انہوں نے معاشرتی نظام کی خرابیوں کو دور کرنے اور اسلامی طرز زندگی کے تحفظ کے لیے باقاعدہ نظم قائم کیا۔ چوں کہ یہ سب لوگ علماء تھے یا مدرسوں کے طلبہ… اس لیے انہوں نے اپنی تنظیم کو ”تحریک طالبان” کا نام دیا۔
ان کے پیش نظر اسلامی معاشرے کی تشکیل، افغان جہاد کے مقاصد کی تکمیل اور عوام کو نام نہاد مجاہد لیڈروں کے طلم و ستم کا شکار عوام کو تحفظ دینا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا اللہ پر مکمل ایمان ہے، یہ ہم ایک لمحے کے لیے بھی نہیں بھولتے، اللہ تعالیٰ ہمیں فتح یا شکست سے دوچار کرسکتا ہے… یہ طالبان انقلاب کی شروعات تھیں۔
یہ نہایت شریف النفس سادہ مزاج لوگ تھے۔ معروف معنوں میں انہوں نے کوئی باقاعدہ انقلابی منصوبہ بندی نہیں کی۔ ان کے پاس اپنی فکر کو پیش کرنے کے لیے لٹریچر تھا نہ ادارتی صف بندی کا ڈھانچہ۔ انہوں نے بہت سادہ انداز میں اپنے کام کا آغاز کیا۔ قرآن و سنت کے مطابق معروف کا حکم اور منکر کو ختم کرنے کا جذبہ ان کے پاس وافر تھا۔ قرآن و سنت ہی ان کی فکر کا محور تھے اور مسجد و مدرسہ ان کی انقلابی صف بندی کی دو اکائیاں تھیں۔ طالبان مجموعی طور پر دیوبندی مسلک کے اکابر سے متاثر تھے۔ امامِ جہاد سید احمد شہید کا افغانستان سے گزرنا تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے لشکر میں باقاعدہ قندھاری دستہ شامل تھا۔ فکری طور پر وہ مولانا رشید احمد گنگوہی اور حضرت شیخ الہند سے وابستہ تھے۔ ان کی صفوں میں ایسے علماء کی بڑی تعداد تھی جس نے پاکستان کے دیو بندی مدارس میں تعلیم پائی تھی۔
انقلاب کا آغاز:
طالبان انقلاب کا آغاز کیسے ہوا؟ اس بارے میں متعدد واقعات بیان کیے جاتے ہیں۔
١٩٩٤ء کے موسم بہار میں ملا محمد عمر مجاہد کے مدرسے میں چند پڑوسی یہ بتانے آئے کہ ایک کمانڈر نے دونوں عمر لڑکیوں کو اغوا کرلیا ہے۔ ان کے سرمونڈ دیے ہیں اور کیمپ میں لے جاکر ان سے کئی بار بداخلاقی کی ہے۔ ملا عمر صاحب نے اپنے مدرسے کے تیس طلبہ کو ساتھ لیا اور کیمپ پر حملہ کردیا۔ ان کے پاس صرف سولہ رائفلیں تھیں۔ انہوں نے لڑکیوں کو چھڑالیا اور کمانڈر کو جس نے انہیں اغواء کیا تھا اور ان کے ساتھ زیادتی کی تھی، توپ کی نالی سے لٹکاکر پھانسی دے دی۔ یہاں سے انہیں خاصی مقدر میں گولہ بارود اور ہتھیار ہاتھ لگے، لوگوں کی دعائیں اور ستائشی کلمات اس پر مستزاد تھے۔ ملا عمر مجاہد کا کہنا تھا کہ:
”ہم ایسے نام نہاد مسلمانوں کے خلاف لڑرہے ہیں جو غلط راہ پر چل رہے ہیں۔ ہم عورتوں اور غریبوں کے خلاف جرائم ہوتے دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتے۔”
چند ماہ بعد قندھار میں دو کمانڈروں میں ایک لڑکے کے سلسلے میں باہم چپقلش ہوگئی اور باہم تصادم کی نوبت آگئی۔ دونوں طرف سے گولہ بارود کا استعمال ہوا اور کئی شہری اس تصادم میں مارے گئے۔ یہ احوال دیکھ کر چند شہریوں نے ملا صاحب سے ان کے سابقہ پاک باز کردار کو دیکھتے ہوئے درخواست کی کہ وہ مقامی جھگڑوں سے ان کی جان چھڑائیں۔ ملا عمر جس کسی کی حمایت کرتے، اس سے کسی صلے اور ستائش کی تمنا نہ کرتے۔ اتنا کہتے کہ وہ اسلامی نظام کے قیام میں ان کا ساتھ دیں۔ بے لوثی اور بے ریائی کے سبب ان کی شہرت قرب و جوار میںپھیل رہی تھی۔
تھوڑے ہی عرصے میں تحریک طالبان نے پاک افغان سرحد پر تجارتی قصبے اسپین لدک پر قبضہ کرلیا، جہاں سے انہیں بھاری مقدار میں اسلحہ ہاتھ لگا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ہی ١٩٩٤ء کے اواخر میں طالبان نے افغانستان کے اہم شہر قندھار پر قبضہ کرلیا۔ قندھار پر قبضے سے تحریک طالبان کو بڑی تقویت ملی۔ ان کی پیش قدمی کو دیکھتے ہوئے بڑی تعداد میں مجاہدین ان سے ملنے لگے۔ تحریک طالبان کی بنیاد چوں کہ شریعت کی تنفیذ اور امن و امان کی بحالی تھی اس لیے فوری طور پر سرکش عناصر کی سر کوبی کی گئی۔ شرعی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جہاں شرعی قوانین کے مطابق جزا و سزا کے فیصلے کیے جاتے۔ ٹی وی اسٹیشن ختم کردیا گیا۔ عورتوں کو گھروں میں پابند کردیا گیا۔ لڑکیوں کی مخلوط تعلیم ختم کردی گئی۔ اپنی عمل داری میں انہوںںے پھاٹکوں کو کلیةً ختم کردیا، جہاں لوگوں سے ظالمانہ ٹیکس وصول کیے جاتے تھے۔ شعبہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے کارکن محلوں اور بازاروں میں غیر شرعی کاموں کی بیخ کنی کرتے اور لوگوں کو معروف کا حکم کرتے۔ طالبان کے ان اقدامات سے امن و امان کا قیام دیکھ کر قرب و جوار کے علاقوں سے قبائلی عمائدین مدد کی درخواستیں لے کر آنے لگے۔ قندھار پر قبضے کے چند ماہ بعد
ہی افغانستان کے بارہ صوبوں پر طالبان کی حکمرانی قائم ہوگئی۔ انہوں نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں عام لوگوں سے اسلحہ واپس لے لیا۔ چناں چہ اب ہتھیار صرف طالبان کمانڈروں اور مجاہدین کے پاس ہوتا تھا۔ معاشرے میں خانہ جنگی ختم ہوکر ٹھہرائو کی کیفیت پیدا ہونے لگی تھی۔ ١٩٩٥ء میں طالبان ہرات پر بھی قابض ہوگئے۔ یہاں قبضہ کرتے ہی طالبان نے فوری طور پر وہی اقدامات کیے جو قندھار میں کیے گئے تھے۔
اب تک کی تمام جنگ قبائلی شر پسندوں اور سر کش کمانڈروں کے خلاف لڑی جارہی تھی اور اس کی مکمل قیادت ملا محمد عمر مجاہد کے پاس تھی۔ انہی کے احکام پر عمل درآمد ہوتا تھا۔ اور بلاشبہ انہوں نے اپنے عمل سے زیر قبضہ علاقوں کے عوام کے دل جیت لیے تھے۔
١٩٩٦ء کے موسم بہار میں قندھار میں ملک کے چیدہ چیدہ علماء اور سر برآور دہ عمائدین کا اجتماع منعقد کیا گیا۔ جن میں طویل بحثیں اس بات پر ہوئیں کہ تحریک طالبان کا فوجی اور سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟ افغان جہاد کے مقاصد یعنی شریعت کے نفاذ کی مؤثر صورت کیا ہوسکتی ہے؟ شورٰی کا قیام ہوا… اور ان تمام معاملات پر بحث و تمحیص ہوتی رہی۔ اسی اجلاس میں ملا محمد عمر مجاہد کو ”امیر المؤمنین” کے لقب سے ملقب کرنے کی تجویز پیش کی گئی۔ اس تجویز کے پاس ہونے کے بعد علماء و مشایخ اور عمائدین نے ملا محمد عمر صاحب کے ہاتھ پر شرعی بیعت کی اور ان سے اسلامی وفاداری کا رشتہ استوار کیا۔ طالبان کا یہ عمل مروج جمہوری طریقوں سے جداگانہ تھا اور انہوں نے ووٹ اور الیکشن پر سرخ لکیر کھینچ دی تھی۔ یوں انہوں نے اس پورے نظام کلیةً مسترد کردیا جو سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کا حصہ ہے۔ بعد میں اعلان کیا گیا کہ:
”شورٰی سیاست اور سیاسی پارٹیوں کو اجازت نہیں دے گی۔ ہم جہاد کو اپنا حق سمجھتے ہیں، ہم اپنا رہن سہن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درود واپس لانا چاہتے ہیں۔ افغانستان کے عوام کی یہی خواہش ہے۔”
کابل جلال آباد پر قبضہ:
امیر المؤمنین کا خطاب ملنے کے بعد طالبان مجاہدین میں ایک نیا جوش و ولولہ پیدا ہوگیا۔ اور وہ سرعت کے ساتھ پیش قدمی کرنے لگے۔ اگست ١٩٩٦ء میں جلال آباد پر قبضہ کیا گیا جب کہ ٢٦ ستمبر ١٩٩٦ء کو طالبان مجاہدین کابل میں داخل ہوگئے۔ کابل پر قبضے کے چوبیس گھنٹے کے اندر شرعی احکام کا نفاذ کردیا گیا۔ لڑکیوں کے اسکول کالج بند کردیے گئے۔ اسلامی شعائر کے مطابق خواتین کو برقع کا پابند کردیا گیا۔ چوروں، ڈاکوؤں اور قاتلوں کو شرعی عدالتوں سے اسلامی سزائیں ہوئیں۔ ٹی وی، ویڈیو، سیٹلائٹ ڈشوں، موسیقی اور لہو و لعب کی نشریات پر مکمل پابندی لگادی گئی۔ کابل پر حکومت کے لیے چھ رکنی شورٰی قائم کی گئی جس کے سربراہ ملا محمد ربانی تھے۔ کابل پر قبضے سے
مجاہدین کے حوصلے بلند ہوئے اور انہوں نے شمال کی طرف پیش قدمی شروع کردی۔ افغانستان کے دیگر مرکزی شہر مزار شریف، بامیان، شبرغان، جوز جان وغیرہ پر یکے بعد دیگرے قبضہ ہوتا چلا گیا۔
طالبان کا حکومتی ڈھانچہ:
١٩٩٦ء کے موسم بہار میں جو شوریٰ تشکیل دی گئی وہ بنیادی حیثیت رکھتی تھی۔ شوریٰ کے ارکان زیادہ تر وہ تھے جنہوں نے تحریک طالبان کے آغاز میں ملا محمد عمر مجاہد کا ساتھ دیا تھا۔ ملا محمد عمر ”امیر المؤمنین” کی حیثیت سے دینی رہبر اور اعلیٰ ترین حاکم تھے۔ امیر المؤمنین شوریٰ اراکین سے ملکی معاملات میں مشورہ ضرور کرتے لیکن حتمی فیصلہ انہی کا ہوتا تھا۔ طالبان شرعی بنیادوں پر ووٹ اور الیکشن کو مسترد کرچکے تھے۔ اس لیے پارلیمنٹ، قومی یا صوبائی اسمبلی کاکوئی وجود نہیں تھا۔
طالبان نے شعبہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر قائم کیا تھا۔ یہ شعبہ براہ راست امیر المؤمنین سے وابستہ تھا جو بازاروں، مارکیٹوں اور محلوں میں شرعی احکام کی عمل داری کا جائزہ لیتا، اگر کہیں خلاف ورزی ہوتی تو مناسب روک تھام کی جاتی اور اگر کہیں سنگین خلاف ورزی ہوتی تو اس معاملے کو تحقیق و تفتیش کے بعد وزارت انصاف کے سپرد کردیا جاتا۔ معاشرتی حوالے سے عمومی نوعیت کے شرعی احکام کا اعلان یہی شعبہ کیا کرتا تھا۔
ملک میں طالبان قیادت کے تحت قاضی عدالتیں قائم تھیں۔ قندھار میں قاضی القضاة کا صدر دفتر تھا اور تقریباً ہر صوبے میں ذیلی عدالتیں قائم تھیں، جہاں لوگ اپنے متنازع معاملات کو حل کراتے۔ فیصلے شریعت کے مطابق کیے جاتے۔ عدالتیں معمولی مقدمات میں عموماً تین روز میں فیصلہ کردیتی تھیں۔ اور غیر معمولی نوعیت کے مقدمات زیادہ سے زیادہ ایک ماہ میں فیصل کردیے جاتے۔ فوری اور شریعت پر مبنی انصاف نے معاشرے میں اعتدال اور امن پید اکردیا تھا۔ لوگ اس قدر مامون تھے کہ کھلی دکانین چھوڑ کر اپنے کام سے چلے جاتے مگر کوئی چوری نہ ہوتی۔ مسافر گاڑیاں ویران اور آباد جگہوں سے دن رات گزرتے سفر کرتیں مگر کوئی لوٹ مار نہ ہوتی۔
طالبان نے نظم مملکت چلانے کے لیے کوئی دستور مرتب نہیںکیا تھا۔ وہ اپنے ہر معاملے میں قرآن و سنت فقہ کے ذخیرے سے مدد لیتے ایک مرتبہ کسی انگریز صحافی نے سوال کیا کہ آپ لوگوں نے دستور کیوں نہیں مرتب کیا تو طالبان عہدیدار کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس قرآن ہے، ہمارا قانون فقہ کی شکل میں مرتب ہے ہمیں تو بس ایسی جگہ چاہیے جہاں ہم اسے نافذ کرسکیں۔
طالبان کے احکام کی ایک جھلک:
طالبان نے اصلاحِ معاشرہ کے لیے اور اس معاشرے کو اسلامی حدود میںلانے کے لیے متعدد اور فوری اقدامات کیے تھے۔ وقتاً فوقتاً دارالامارہ سے احکام جاری ہوتے جن کی پابندی کرنا لازم ہوتی تھی۔ انہوں نے فحاشی و عریانی کو بند کرنے
کے لیے نہایت جری فیصلے کیے، لوگوں کے اخلاق کو بگاڑنے والے امور پر قدغن لگائی، ان کے احکام اس انداز کے ہوتے!
٭… مذہبی پولیس (منکرات) کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان معاشرتی مسائل کے خلاف جدوجہد کریں اور یہ جدوجہد اس وقت تک جاری رکھیں جب تک یہ برائیاں ختم نہیں ہوجاتیں۔
٭… عورتیں علاج کے لیے خواتین معالجوں کے پاس جائیں۔ اگر کسی مرد معالج کی ضرورت پڑجائے تو بیمار خاتون اپنے کسی قریبی رشتہ داری کے ساتھ اس کے پاس جائے۔
٭… موسیقی کی ممانعت کے لیے ابلاغ عامہ کے ذرائع کی طرف سے کیے جانے والے نشریے، دکانوں، ہوٹلوں، موٹر گاڑیوں، رکشوں میں کیسٹ اور موسیقی ممنوع ہے۔ پانچ دن تک جائزہ لیا جائے گا، اس کے بعد اگر کسی دکان سے کیسٹ نکلا تو دکاندار کو قید میں ڈال دیا جائے گا اور دکان مقفل کردی جائے گی۔ پانچ افراد کی ضمانت پر دکان کھول دی جائے گی اور بعد میں قیدی کو رہا کردیا جائے گا، اگر کسی موٹر گاڑی میں سے کیسٹ نکلا تو ڈرائیور کو قید کردیا جائے گا۔ پانچ گواہوں کی ضمانت پر گاڑی چھوڑ دی جائے گی اور ڈرائیور کو بعد میں رہا کردیا جائے گا۔
٭… داڑھی مونڈنے اور تراشنے کو روکنا: ڈیڑھ ماہ تک شیو نہ کرنے کے بعد اگر کسی نے داڑھی مونڈی اور داڑھی تراشی تو اس وقت تک قید رکھا جائے گا جب تک اس کی داڑھی بڑی نہیںہوجاتی۔
٭… کبوتر پالنے اور تاش کھیلنے کی روک تھام کے لیے: دس دن کے اندر یہ عادت یا مشغلہ ترک کرنا پڑے گا۔
٭… پتنگ بازی کی ممانعت کے لیے: شہر میں پتنگوں کی دکانیں ختم کردی جائیں گی۔
٭… بت پرستی کی ممانعت کے لیے: موٹر گاڑیوں اور دکانوں، ہوٹلوں کمروں اور دوسری جگہوں سے تصویریں، پورٹریٹ ختم کردیے جائیں گے۔ سرکاری عملے کے ارکان ان جگہوں میں لگی تصویریں پھاڑ دیں گے۔
٭… جوئے کی روک تھام کے لیے: پولیس کی مدد سے جوئے خانے تلاش کرکے جواریوں کو ایک مہینے کے لیے قید کردیا جائے گا۔
٭… منشیات کا استعمال ختم کرانے کے لیے: نشہ بازوں کو قید کرایا جائے گا اور منشیات فراہم کرنے والے افراد اور دکانوں کا پتا چلایا جائے گا، دکانیں مقفل کردی جائیں گی۔ دکاندار اور نشہ کرنے والوں کو سزا دی جائے گی اور قید میں ڈال دیا جائے گا۔
٭… برطانوی اور امریکی طرز کے بال تراشنے کی ممانعت کے لیے ان لوگوں کو جو لمبے بال رکھتے ہیں، گرفتار کرکے مذہبی پولیس کے محکمے میں لے جاکر ان کے بال کاٹ دیے جائیں گے۔ بال کاٹنے کا معاوضہ مجرموں سے لے کے حجام کو دیا جائے گا۔
٭… قرضوں پر سود بڑے نوٹوں کے عوض چھوٹے نوٹ لینے پر اور منی آرڈروں پر معاوضہ کی روک تھام کے لیے، تمام منی چینجروں کو مطلع کیا جائے گا کہ رقوم کے ان تین قسم کے تبادلوں پر عائد پابندی کی خلاف ورزی پر طویل عرصے کی قید کی سزا دی جائے گی۔
٭… شہر میں بہتی ندیوں کے کنارے نوجوان لڑکیوں کے کپڑے دھونے پر پابندی ہے، جو نوجوان لڑکیاں اس ضابطے کی خلاف ورزی کریں گی، انہیں اسلامی قواعد کے مطابق پورے احترام کے ساتھ ان کے گھروں کے لیے لے جایا جائے گا اور ان کی خاوندوں کو شدید سزا دی جائے گی۔
٭… شادی بیاہ کے موقعے پر ناچ گانے کی ممانعت، خلاف ورزی پر خاندان کے سربراہ کو گرفتار کرکے سزا دی جائے گی۔
٭… موسیقی کے لیے ڈھول وغیرہ بجانے کی روک تھام: اس کی ممانعت کا اعلان کیا جائے گا، اگر کوئی خلاف ورزی کرے گا تو مذہبی علماء سے فیصلہ کرنے کے لیے کہا جائے گا۔
٭… عورتوں کے لباس سینے اور درزیوں کو ان کا ناپ لینے کی ممانعت ہوگی، دکانوں میں عورتوں کے یا فیشن کے میگزین نکلے تو درزی کو قید کردیا جائے گا۔
٭… جادوگری روکنے کے لیے: تمام متعلقہ کتابیں جلادی جائیں گے اور جادو گروں کو اس وقت تک قید میں رکھا جائے گا جب تک وہ تائب نہیں ہوجاتے۔
٭… نماز ادا نہ کرنے والوں کے لیے اور بازار میں نماز کے لیے اجتماع کا حکم: نماز مقررہ اوقات پر ادا کی جائے گی۔ تمام گاڑیوں میں آمد و رفت بند ہوجائے گی۔ تمام لوگوں کے لیے مساجد میں جانا لازم ہوگا۔ نوجوانوں کو نماز کے وقت دکانوں میں دیکھا گیا تو انہیں قید کرلیا جائے گا۔
جہادی ریاست:
اسلامی ریاست کا ایک خاص وظیفہ جہاد بھی ہے۔ اسلامی حکمران کا فرض ہے کہ وہ کفار کے خلاف اپنے لشکر تیار رکھے۔ امیر المؤمنین ملا محمد عمر کی قیادت میں جو لوگ جہا دکے لیے جمع ہوئے تھے وہ کوئی تن خواہ دار فوجی نہ تھے۔ وہ رضاکارانہ جہاد میں شامل ہوئے۔
طالبان کے زیر قبضہ علاقہ تھوڑے ہی عرصہ میں مجاہدین کی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا تھا۔ عالمی جہاد کے قائد شیخ اسامہ بن لادن سوڈان چھوڑ کر جلال آباد کو اپنا مستقر بناچکے تھے۔ بعد میں انہوں نے نے قندھار کو اپنا مرکز بنایا۔ ان کے گرد عرب مجاہدین کی بڑی تعداد جمع ہوگئی تھی۔ پاکستانی مجاہدین کی متعدد تنظیمیں بھی اپنے ٹھکانے افغانستان میں بناچکی تھیں۔ ازبکستان کے مجاہدین جمعہ نمنگانی شہید کی قیادت میں یہاں موجود تھے۔ اسی طرح چیچنیا، ترکی،
صومالیہ، برما، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، سنکیانگ، الجزائر، لیبیا اور تیونس کے مجاہدین یہاں موجود تھے۔ ان سب کے یہاں اپنے اپنے ٹریننگ سینٹر اور قرار گاہیں تھیں۔ یوں افغانستان کی اسلامی ریاست عالمی جہادی ریاست کا روپ دھار چکی تھی اور وہ دنیا بھر کی جہادی تحریکوں کے لیے سائبان بن گئی تھی۔ یہ وجہ تھی کہ افغانستان کی اسلامی امارت و ریاست دنیا بھر کے مسلمانوں کی امیدوں کا محور اور مرکز بن رہی تھی۔
بین الاقوامی دبائو:
طالبان کی اسلامی کومت کو صرف تین ملکوں پاکستان، سعودی عرب اور دبئی نے تسلیم کیا تھا۔ جب کہ دیگر مسلم ممالک نے انہیں سفارتی سطح پر کبھی تسلیم نہیں کیا۔ اقوام متحدہ، امریکا، برطانیہ اور فرانس وغیرہ نے شروع ہی سے معاندانہ رویہ رکھا۔ اس کی بھی وجہ تھی کہ طالبان نے ان تمام مروجہ اصول و قوانین کو یکسر مسترد کردیا تھا جن کی بنیاد ہیومن رائٹس تھے۔ طالبان نے الیکشن اور تنظیم سازی کی بجائے شرعی امارات اور بیعت کا احیاء کیا۔ انہوں نے ایک ایک کرکے ایسی علامتوں پر پابندی لگادی جو مغربیت کا سمبل تھیں، مثلاً انگریزی طرز کے لباس، جینز، انگریزی بال، موسیقی ،مرد و عورت کا آزادانہ اختلاط وغیرہ۔ اس کے علاوہ بعض بین الاقوامی تجارتی تنظیموں کے مفادات طالبان کے طرز عمل سے ٹکرانے لگے تھے۔ طالبان نے چور، ڈاکو، زانی کی شرعی سزائوں کا احیاء کیا تھا۔ جب کہ اقوام متحدہ کا منشور ان سزائوں کو قطعاً برداشت نہیں کرتا۔ مغرب چاہتا تھا کہ طالبان اپنے اندر لچک پیدا کریں، مگر وہ اپنے اصول و عقائد پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔
اس سب سے بڑھ کر طالبان کی اسلامی ریاست کا بڑھتا ہوا جہادی امیج مغرب کے لیے سوہانِ روح تھا۔ اسلامی امارت کے مہمان شیخ اسامہ بن لادن کے امریکا کے خلاف اعلانِ جہا دنے مغربی دنیا میں خوف و دہشت کی فضا قائم کردی تھی۔
مزید برآن طالبان سے عالمی تجارتی تنظیموں خصوصاً امریکی کمپنی یونوکال کی ناراضی، بعد کے واقعات میں اثر انداز ہوئی، امریکا نے دھمکی، دھونس اور لالچ کے ذریعے اپنے مفادات کی تکمیل کرنا چاہی مگر ناکام رہا۔
دوسرے لفظوں میں امریکا نے طالبان کو عالمی سرمایہ داری نظام میں سمونے کی کوشش کی۔ مگر انہوں نے اس کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔ اس کی سزا یہ دی گئی کہ پہلے امریکا کی طرف سے اقتصادی پابندیاں عاید کی گئیں اس کے بعد شیخ اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کردیا گیا۔ شیخ اسامہ کی افغانستان میں موجودگی کا مطلب امریکا اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی خطے سے پسپائی تھا۔ ان کی موجودگی کی وجہ سے امریکا خطے میں نہ اپنے قدم جماسکتا تھا نہ یہاں کے قدرتی وسائل کو ہڑپ کرسکتا تھا۔ چناں چہ کچھ عرصہ بعد طالبان پر اقوام متحدہ کی جانب سے مکمل اقتصادی پابندیاں عائد کردی گئیں۔ ١٩٩٨ء میں شیخ اسامہ کے کیمپوں پر کروز میزائل برسائے، جس کے بعد شیخ اسامہ نے
عالمی سطح پر امریکا کے خلاف جہاد کا اعلان کردیا۔ تاآں کہ ٢٠٠١ء میں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا اور امریکا کا فخر و غرور ملیا میٹ ہوگیا، امریکا بدمست ہوکر افغانستان پر چڑھ دوڑا اور اس نے طالبان کی اسلامی امارت کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ آبادیوں کو تباہ کیا اور اپنے اتحادیوں کے ہمراہ افغانستان پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد سے اب تک بارہ سال کا عرصہ گزرجانے کے باوجود امریکا کو کوئی دن سکون سے گزارنا نصیب نہیں ہوا اور وہ مسلسل جنگ آزما ہے اوراس کی معیشت کی بنیادیں ہل گئی ہیں۔ شیخ اسامہ، جن کا سر لینے کے لیے وہ افغانستان پر چڑھ دوڑا تھا دس سال خاک چھاننے کے بعد اور اربوں کھربوں ڈالر پھونک کر ہی ان تک پہنچنے میں کامیاب ہوسکے۔ اس دوران طالبان نے بے مثال جدوجہد جاری رکھی اور ہنوز جاری ہے۔ اور ان شاء اللہ وہ امریکیوں کو اس خطے سے نکال کر دم لیں گے۔
طالبان انقلاب کی اہم خصوصیات:
طالبان عالی شان کی اہم خصوصیات بے شمار ہیں من جملہ چند ذکر کی جاتی ہیں:
٭… طالبان کی سب سے بڑی خصوصیت اپنے رہبر امیر المؤمنین ملّا محمد عمر پر کامل اعتماد اور ان کی اطاعت ہے۔ تحریکی نظم میں اس بات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے جو کسی مشن کی تکمیل کے لیے ممدد و معاون ہوتی ہے۔
٭… طالبان کی دوسری بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے قیام کے دور میں شریعت کے کے نفاذ میں کوتاہی نہیں کی۔ اس ضمن میں انہوں نے دستوریت، جمہوریت اور ووٹ کے نظام کو یکسر مسترد کردیا۔
٭… انقلاب کا حقیقی مفہوم کہ جس میں نہ صرف حکومت بدلتی ہے بلکہ طرز معاشرت بھی بدل جاتی ہے، طالبان کے دور میں نظر آتا ہے۔ انہوں نے ان تمام امور کو رد کردیا جن کا تعلق سرمایہ داری سے تھا یا دوسرے لفظوں میں کفریہ نظاموں سے تھا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انہوں نے کبھی انقلاب کا نعرہ نہیں لگایا، بس سادہ انداز میں شریعت کے بول بالا کرنے کی فکر میں رہے، دنیا اسے کیا نام دیتی ہے انہیں اس سے کوئی غرض نہیں تھی۔
٭… طالبان نے اسلامی امارت قائم کرکے مثالی امن و امان قائم کیا۔ شرعی عدالتیں قائم کرکے عامة الناس کو عدل و انصاف مہیا کیا۔
٭… طالبان نے شرعی اصولوں پر کبھی کمپرومائز نہیں کیا، اس کی سب سے بڑی مثال طالبان کا شیخ اسامہ کو امریکا کے حوالے نہ کرنا ہے۔ انہوں نے سلطنت کھودی مگر ایک مسلمان مجاہد فی سبیل اللہ کو کفار کے حوالے کرنا گوارا نہیں کیا۔
٭… طالبان انقلاب کی ایک بہت بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ کسی لٹریچر، کی اشاعت اور باقاعدہ تنظیمی نظم (جیسا کہ جمہوری تحریکات میں یا اشتراکی تنظیموں میں متصور ہے) کے بغیر ابھرے انہوں نے اول و آخر قرآن و حدیث کو اپنا
محور بنایا، وہ معاشرے میں گھل مل گئے، معاشرے نے انہیں، ان کی تقریروں اور بلند بانگ خوش نمانعروں کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے عملِ صالح کو دیکھ کر قبول کیا۔
٭… طالبان کے قبول عام میں تقویٰ، پرہیزگاری، امانت و دیانت اور بلا امتیاز فوری انصاف فراہم کرنے کا عنصر شامل رہا۔
٭… جہادی مزاج اور شہادت کی آرزو انہیں انگیخت کرتی ہے اور وہ دین کے قیام کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کو سعادت سمجھتے ہیں۔
٭…گزشتہ بارہ سالہ دوران کے لیے مصائب و آلام، داخلی شورشوں اور خارجی طور پر زبردست حملوں کے باوجود ان میں اب تک بے مثال اتحاد، تنظیم اور آپس کا اعتماد قائم ہے۔ انہوں نے جہاد سے منہ نہیں موڑا، اللہ کی مدد و نصرت سے پوری دنیا سے جمع اتحادیوں کا مقابلہ کررہے ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب ان کا جہاد کامیابی سے ہم کنار ہوگا،اسلامی انقلاب برپا ہوگااورفغانستان میں اسلامی ریاست قائم ہو گی۔