آئی ایم ایف کیا چاہتا ہے؟ [What does IMF Want]
ڈاکٹر جاویداکبرانصاری-
١٩٨٨ء میں بے نظیر بھٹو کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ پہلا اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ Structural Adjustment معاہدہ کیا۔ اس کے بعد پاکستان کی ہر حکومت تواتر کے ساتھ اسی نوعیت کے منصوبے تیار کرتی ہے چلی آرہی ہے۔ موجودہ IMF کے ساتھ کیا گیا معاہدہ Poverty Reductio ، P.R.G.F Growith Faclility کہلاتا ہے۔ اس کا دورانیہ ٣سال کا ہے۔ یعنی ٢٠٠١ء سے ٢٠٠٤ء تک۔
٢٠٠٢ء میں ٧٨ ممالک نے اس نوعیت کے معاہدے کیے ہیں۔ ان معاہدوں کے تحت آئی ایم ایف بہت کم شرح سود پر ان ممالک کو طویل المدت قرضہ دیتا ہے جس کے عوض یہ ممالک آئی ایم ایف کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ ان ممالک کی معاشی پالیسی متعین کرے۔
جیسا کہ امریکی معیشت دان آرتھر میکیون Arthur Mac Evan نے لکھا ہے کہ آئی ایم ایف بنیادی طو رپر امریکی دفترخارجہ کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ آئی ایم ایف کا بنیادی مقصد سرمایہ دارانہ نظام کا تحفظ اور اس میں امریکا کی بالادستی کا استحکام ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام جس بنیادی دشواریوں کا سامنا ہے وہ درج ذیل ہیں:
(١) ١٩٧٣ء کے بعد سے مجموعی رفتار ترقی GDP growth rate 1950-72 کے مقابلہ میں گر کر آدھی سے بھی کم رہ گئی ہے۔ ١٩٩٠ء کی دہائی میں یہ تاثر بنتا تھا کہ اب ایک نیا تکنیکی انقلاب Trchnological revolution آیا ہے اور امریکی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے لیکن یہ غلط ثابت ہوا اور اب یہ سب پر عیاں ہوگیا ہے کہ ١٩٩٠ء کی دہائی میں ترقی کی رفتار میں اضافہ ایک بڑا حصہ مخصوص سٹہ بازوں اور اکاؤنٹوں کی جعل سازی اور فراڈ کے سوال کچھ نہیں۔ ٢٠٠٠کے وسط سے بیشترف غریب ممالک کے سٹہ بازار انحطاط کا شکار ہے اور امریکا وپورپ اور جاپان ہر جگہ معاشی تنزلی کے آثار نمایاں ہیں، خود آئی ایم ایف کے تخمینوں کے مطابق ٢٠٠٢ء میں جاپان کی معاشی رفتاری ترقی صفر فیصد، یورپ کی ایک فیصد اور امریکا کی 2.2 کی فیصد ہوگی۔
٢۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں تمویلی (Finanseal) شعبہ کی بڑھوتری پیداواری شعبوںزراعت، صنعت معدنیات اور ان سے متعلق خدامات کی بڑھوتری سے کئی گناہ زیادہ ہے، یہ تضاد آنے والے ناگزیر بحران کا پیش خیمہ ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ تمویل کا انحصار سود اور سٹہ پر ہوتا ہے اور اس نظام میں معیشت پر قرضوں کا بوجھ بے اندازہ حد تک بڑھ جاتا ہے۔ سرمایہ کاری Inveslment اور خرچ (Consumption) دونوں کی بنیاد قرض پر ہوجاتی ہے۔ بچتیں کم ہوجاتی ہیں۔ امریکا کی گھریلوں بچتیں منفی ہوگئی ہے۔ بختون کی یہ کمی سرمایہ دارانہ نظام کے لیے شدید خطرہ ثابت ہوسکتی ہیں۔
٣۔ پیداواری شعبوں میں انحطاط کا باعث آبادی میں کمی اور آبادی میں بوڑھوں کی شرح میں مسلسل اضافہ ٧۔٢٠٠١ ء میں مغربی ممالک کا عالمی آبادی میں ١٤٠ فیصد تھا۔ ٢٠٥٠ ء تک یہ گھٹ کر٩فیصد رہ جائے گا۔ اسی طرح ٢٠٥٠ء تک مغربی ممالک میں ٦٥سال سے زیادہ عمر پانے والے مجموعی فیصد آبادی کا ٣٠ فیصد ہوجائیں گے۔ جب تک آبادی میں اضافہ نہ ہو پیداوار میں اضافہ بے معنی ہے۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ مغربی ممالک میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ مغربی یورپ میں تقریباً ٩فیصد افرادی قوت بے روزگاری کا شکار ہے اور امریکا میں اجرتیں کم ہو رہی ہیں، قوت خرید میں اضافہ کا پورے دارومدار قرضوں کی بڑھوتری پر ہوگیا ہے۔
ان وجوہ کی بناء پر عالمی سرمایہ دارانہ نظام طویل المدت انحطاط کا شکار ہے۔ یہ انحطاط وقفہ وقفہ سے بحران کی شکل اختیار کرتا رہتا ہے۔ امریکی پالیسی ساز چاہتے ہیں۔
١۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام ترقی کرے اور طویل المدت بحران سے نجات پائے۔
٢۔ لیکن اس طرح کہ اس نظام میں امریکا کی سیاسی اور عسکری بالادستی قائم رہے۔
یہی دو اہداف آئی ایم ایف کے بھی اہداف ہیں کیونکہ وہ اصلاً امریکی دفترخارجہ کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو وسعت دینے اور امریکا کی بالادستی کو مستحکم کرنا آئی ایم ایف کی بنیادی ترجیحات ہیں، ان ترجیحات کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بین الاقوامی کمپنیوں (Multinationals) اور بینکوں کا عالمی نظام قائم کیا جائے۔ یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور بینک اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس تسلط کو قائم رکھنے کے لیے عسکری اور سیاسی قوت کی ضرورت ہے اور یہ قوت صرف اور صرف امریکا ہی فراہم کرسکتا ہے۔ لہٰذا تمام ملٹی نیشنل کمپنیاں اور بینک امریکی بالادستی پر انحصار کرتے ہیں، یہ بات عرب، ملیشین ، یورپی اور جاپانی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بینکوں کے لیے اتنی ہی درست ہے جتنی امریکی کمپنیوں اور بینکوں کے لیے۔ اسد کی وجہ یہ ہے کہ یہ سب عالمی سرمایہ دارانہ نجی ادارے ہیں اور ان سب کے لیے ضروری ہے کہ ان کو عالمی سرمایہ دارانہ ریاست کا تحفظ حاصل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سرمایہ خواہ عربوں اور ملائیشن کے دسترس میں ہو خواہ جاپانیوں اور یورپیوں کے اپنے آپ کو محفوظ صرف ان ممالک میں کرتا ہے جو امریکا کی سیاسی اور عسکری بالادستی کو قبول کرتے ہیں۔
ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بینکوں کے عالمی تسلط کو قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ترسیل زر اور ترسیل اشیاء پر تمام قوعمی پابندیاں اٹھائی جائیں۔ اس عمل کو Libaralisation کہتے ہیں اور اس کی اساس اس اصول پر ہے کہ ہر ملک کی کرنسی بلاروک ٹوک امریکی ڈالر میں تبدیلی کی جاسکے اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ تمام کاروبار سرمایہ دارانہ بازاروں کے نظم اور اصولوں کے ماتحت ہو یہ پرویٹائزیشن (Privitisation) کے عمل کی اساس ہے اگر دنیا کا تمام کاروبار (Privitisation) اور (Liberalisation) کے نظم اور اصول کے ماتحت آجائے تو ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بینکوں اور ان کی پشت پناہ عالمی سرمایہ دارانہ ریاست امریکا کی بالادستی ناگزیر ہے۔ ان کا قبضہ تمام ممالک کی افرادی قوت پر مستحکم ہوجائے گی۔ ایشیا اور افریقہ ان کی منڈیاں سن بن جائیں گی اور ایشیا اور افریقہ کی دولت کھنچ کھنچ کر عالمی سود اور سٹہ کے بازار میں مرتکز ہوتی چلی جائے گی۔ اپنی افرادی قوت کی کمی اور پیداواری صلاحیت کی کمی کے باوجود امریکی تسلط مستحکم سے مستحکم تر ہوتا چلا جائے گا اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام محفوظ ہوگا۔ یہی آئی ایم ایف کی اصل خواہش ہے عالمی سرمایہ دارانہ بالادستی کی راہ میں اصل رکاوٹ دور حاضر میں قومی ریاست ہے۔ قومی ریاستیں چاہیں تو ترسیل زر وترسیل ایشیا کو کنٹرول کرسکتی ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بینکوں کو قومیا سکتی ہیں اور سرکاری سرمایہ کاری کے ذریعہ ملکی معیشت میں ترقی کی رفتار میں اضافہ کرسکتی ہیں، ماضی قریب میں کئی قومی حکومتوں نے اس نوعیت کی حکمت عملی نہایت کامیابی سے اپنائی مثلاً چین میں ١٩٩٧ء ۔٢٠٠١کے دور میں اوسط سالانہ ترقی کی رفتار ٨فیصد رہی۔ کوریا اور تائیوان میں ١٩٩٧۔١٩٧٤ء کے دوران یہ رفتار 8.2 فیصد رہی اور ایران میں ١٩٩٦ء ۔١٩٧٩ء تک یہ رفتار ٦فیصد سے تجاوز کر گئی۔
یہ تمام ممالک میں ان ادوار میں ترسیل زر اور ترسیل اشیاء پر پابندیاں عائد کرتے تھے اور اپنی کرنسی کو آزادانہ ڈالر میں تبدیل نہ ہونے دیتے تھے۔ آئی ایم ایف اور دوسرے امریکی ادارے ان ملکوں میں مالی بحران پیدا کرتے ہیں اس کا سب سے کامیاب تجربہ وہ بحران ہے جو آئی ایم ایف نے مشرقی ایشیا میں ١٩٩٨ئ۔١٩٩٧ء میں پیدا کیا جس کے نتیجہ میں امریکا کے ایک مشہور معیشت دان Rudi Dornbusu کے بقول ”امریکی سرمایہ کا مکمل قبضہ ساؤتھ کوریا پرت ہوگیا” ایران میں بھی معاشی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں لانے اور قدامت پسندوں کو ریاستی پالیسی سازی کے عمل سے بے دخل کرنے کی جدوجہد میں آئی ایم ایف پیش پیش ہے۔
آئی ایم ایف کے بنیادی اہداف عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا استحکام اور اس نظام میں امریکی بالادستی کا فروغ ہے اپنے اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ ایگریمنٹ اور P.R.G.F معاہدہ کے تحت وہ پاکستان کے عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں سمو دینا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ امریکی بالادستی پاکستان میں قائم ہو۔