
مصر میں اسلامی تحریک اخوان المسلمون کے سربراہ محمد بدیع اور نائب سربراہ محمود عزت سمیت 8 رہنماؤں کو فوجی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے پر عدالت نے موت کی سزا سنا دی۔ان کے علاوہ اخوان کے مزید 50افراد کو قید کی مختلف سزائیں سنائی گئی ہیں۔
یہ سب افراد 10 سال سے قید ہی میں ہیں اور وہیں اُن پر مقدمات بنا بنا کر سزائیں سنائی جا رہی ہیں۔ مرشد عام محمد بدیع سمیت 11 رہنماوں کوفلسطین کی تنظیم حماس کے لیے جاسوسی کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی ہوئی تھی۔اب یہ قید کی سزا پھانسی میں تبدیل ہوجائیگی ۔ ایمرجنسی کے تحت قائم انسداد دہشت گردی عدالت نے ملزمان کو جون تا اگست 2013 میں سابق منتخب مصری صدر محمد مرسی کے حق میں دھرنے اور مظاہرے کرنے، انتشار پھیلانے، تخریب کاری اور املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں سزا سنائی۔
عدالت نے 21 ملزمان کو مقدمات سے بری کرنے کا بھی حکم دیا۔2013 میں مصری فوج کے جرنیل عبدالفتاح سیسی نے الیکشن کے بعد منتخب ہونے والے صدر محمد مرسی کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا ۔اس کے بعد اخوان المسلمون کے رہنماؤں کو قید کر کے مقدمات قائم کیے گئے اور قید کی سزائیں دی جاچکی ہیں۔ محمد بدیع، پر کئی مقدمات مصر میں 2011 میں حسنی مبارک کی حکومت کے خلاف احتجاج ، پولیس اہلکاروں کو قتل کرنے اور جیل توڑنے کے جھوٹے الزامات پر بھی چلایا گیا۔
اخوان کے کئی قائدین کو پھانسی کی سزائیں دی گئیں ہیں جبکہ 67 سالہ معزول صدر محمد مرسی بھی دوران قید ہی انتقال کرگئے تھے۔اخوان کے پہلے مرشد عام حسن البنا کی پھانسی سے لیکر ساتویں محمود عزت اور آٹھویں مرشد عام محمد بدیع ہیں جنہیں ریاست نے موت کی سزا دی ہے۔سزاؤں کے خلاف کئی اپیلیں عدالتوں میں چلیں لیکن محض احتجاجی مظاہرہ کرنے پر سزاکا فیصلہ اپنی جگہ ویسے ہی موجود رہاجیسے جنرل سیسی مصر کے اقتدار پر موجود ہے۔
مغرب کو جمہوریت صرف وہی پسند ہے جو اُس کی مرضی کی ہو ، وگرنہ وہ عوامی ووٹوں سے منتخب حکومت کو محض ایک جرنیل کے ذریعہ نہ صرف لپیٹ سکتا ہے بلکہ اُن سب کو موت کے گھاٹ بھی اتار دینا ایک مہذب عمل سمجھتا ہے۔ الجزائر سے لیکر ترکی ،فلسطین اور مصر تک سب ممالک میں جمہوریت کی ایسی ہی حقیقت ہے۔اب یہ اسلامی تحریکوں کو سوچنا ہوگا کہ وہ کب تک جمہوریت کو اسلامی سمجھ کر اپناتی رہیں گی۔