
حوثیوں کے حملے میں بحیرہ احمر کے نیچے گزرنے والی تین انٹرنیٹ کی ڈیٹاکیبل بھی تباہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ اس کے علاوہ امریکی سینٹرل کمانڈ نے منگل کے روز اعلان کیا ہےکہ حوثیوں نے کل شام خلیج عدن کی طرف دو اینٹی شپ بیلسٹک میزائل داغے جن کے نتیجے میں لائبیریا کا جھنڈا لہرانے والے سوئس ملکیتی کنٹینر جہاز کو نشانہ بنایا گیا۔
قبل ازیں حوثی گروپ نے اعلان کیا تھا کہ اس نے "بحیرہ عرب اور بحیرہ احمر میں ایک اسرائیلی جہاز اور امریکی جنگی جہازوں کو نشانہ بناتے ہوئے دو کارروائیاں کیں، جبکہ انٹرنیٹ کیبلز کے تباہ ہونے کے مقام کی بھی تلاش جاری ہے کیونکہ اس سے کوئی ۲۵ فیصد ڈیٹا ٹرانسفر متاثر ہوا ہے”۔
19 نومبر سے ایرانی حمایت یافتہ حوثی گروپ نے اس بین الاقوامی سطح پر اہم شپنگ لین میں تجارتی بحری جہازوں پر ڈرونز اور میزائلوں سے تقریباً 60 حملے کیے ہیں۔
فروری 2024 تک اکٹھے کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق بحیرہ احمر جو خام مال کی ترسیل اور گذشتہ سال تک بحری تجارت کے 10 فیصد حصے کے ساتھ بحری تجارت کا اہم ترین روٹ تھا، اس میں سے گزرنے والے جہازوں نے اپنے تحفظ کیلئے جنوبی افریقہ میں کیپ آف گڈ ہوپ کا پرانا راستہ اختیار کرنا شروع کردیا ہے۔
یہ راستہ نہر سوئز کے مقابلے میں 3500 سمندری میل لمبا ہے اور اس میں 10 سے 14 دن زیادہ لگ رہے ہیں۔ فاصلے میں اس اضافے کے سبب ناردرن یورپ میں آنے والے کنٹینرز کے کرائے میں ساڑھے 5 ہزار ڈالر، میڈیٹرینین ایریا کیلئے 7 ہزار ڈالر اور نارتھ امریکہ اور ایسٹ کوسٹ کیلئے بھی 7 ہزار ڈالر تک کا فی کنٹینر اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
انہی اعداد و شمار کے مطابق اس راستے سے نومبر 2023 سے قبل دنیا کا 24 اعشاریہ 9 فیصد کیروسین اور جیٹ فیول، 22.7 فیصد خوردنی تیل اور بائیو فیولز، مختلف بلینڈنگز 17.5 فیصد روانہ کیے جاتے تھے۔
اسی طرح مختلف بحری جہاز دنیا کیلئے ساڑھے 17 فیصد اجناس، 14 فیصد فرٹیلائزر، 14 فیصد کے قریب فیول آئلز اور ساڑھے 12 فیصد اسٹیل بھی لیکر سفر کرتے ہیں۔
اسی طرح ساڑھے 10 فیصد سے لیکر ساڑھے 5 فیصد تک دنیا بھر کا گیس آئل اور ڈیزل، ایل این جی، کیمیکلز، گیسولین اور نیفتھا، خام تیل اور آئل سیڈز بھی اسی راستے سے ٹرانسپورٹ کیا جاتا تھا۔
واضح رہے کہ حوثی قبائل کے مطابق انہوں نے اسرائیل کی جانب سے غزہ پر حملے نہ رکنے کے سبب یمن کے قریب سے اس بین الاقوامی راستے کو بحری تجارت کیلئے متاثر کیا ہے۔