
امام مالک ؒ کی زندگی میں ایسے سخت حالات بھی گزرے ہیں جب آپ اور اہل خانہ فاقوں سے ہوتے ، لیکن آپ مسجد نبوی میں قائم اپنی درس گاہ کی مصروفیات کو کسب معاش پر ترجیح دیتے ۔ نوبت یہ تھی کہ آپ کے پاس اپنی معصوم بچی کے لیے روٹی تک میسر نہ ہوتی مگر ان سنگین لمحات میں بھی نہ آپ نے کسی سے اپنے دل کا حال کہا نہ مدد کی درخواست کی ۔ پھر جب اللہ نے آپ پر کشائش کے دروازے کھول دیے تو نہ چہرے پر کوئی تاثر تھا نہ دل میں احساس تفاخر پیدا ہوا ۔ جتنا مال آتا اسے دریا دلی سے خرچ کر دیا کرتے ۔ اس کی گواہی آپ کے شاگرد رشید امام شافعی ؒ نے بھی دی جنہیں بلا تعطل گیارہ سال تک ہزاروں دینار بھجوایا کرتے ۔ مال کی بہتات اس قدر بڑھ گئی کہ ظاہر پرستوں کی طرف سے امام مالک کی خوش حال طرز معاشرت پر تنقید کی جانے لگی ۔ لیکن اس حقیقت کو امام شافعی اپنے سفرنامے میں اس طرح بیان کرتے ہیں ۔
امام شافعی لکھتے ہیں :
اس وقت مجھے نجران میں تین سال ہو چکے تھے اسی دوران کچھ لوگ حج کی سعادت حاصل کرکے اپنے وطن لوٹ رہے تھے میں ان سے امام مالک اور اپنے وطن کے حالات معلوم کرنے کے لیے چلا راستے میں مجھے ایک نوجوان نظر آیا ۔ وہ اونٹ پر سوار تھا ۔ میں نے اشارے سے سلام کیا نوجوان نے ساربان کو اونٹ روکنے کا حکم دیا اور مجھ سے مخاطب ہوا ۔ میں نے امام مالک اور اہل حجاز کے حالات پوچھے تو اس نے کہا تفصیل سے بتاؤں یا مختصر جواب دوں ؟
میں نے کہا اختصار ہی میں بلاغت ہوتی ہے ، پھر نوجوان نے مجھے بتایا امام مالک تندرست ہیں اور بہت دولت مند ہوگئے ہیں ۔ اس کی زبانی امام کی آسودگی کا حال سنا تو امام سے ملاقات کا شوق ہوا تاکہ انہیں فراغت و خوش حالی کے زمانے میں بھی دیکھوں فقر و فاقہ تو پہلے دیکھ چکا تھا ۔ اس خیال کے آتے ہی نجران سے روانہ ہوا اور ستائیسویں روز بعد عصر نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے شہر میں داخل ہوا سیدھا مسجد چلا گیا ۔ نماز پڑھ کر دیکھا تو لوہے کی مزین کرسی مسجد میں نظر آئی جس پر مصر کا بنا ہوا ایک قیمتی تکیہ موجود تھا ، تکیہ پر کلمہ توحید کندہ تھا ۔ میں اس منظر میں کھویا تھا کہ باب نبی سے امام مالک کو نکلتے دیکھا ، امام کی آمد کے ساتھ ہی پوری مسجد عطر کی خوشبو سے مہک اٹھی ۔ امام مالک نے قیمتی جبہ پہن رکھا تھا چار خدمات گار ساتھ تھے ۔ امام جب اپنی مجلس میں پہنچے تو تمام بیٹھے ہوئے لوگ کھڑے ہو گئے ، امام نے مجھے دیکھا تو بڑی محبت کے ساتھ گلے لگایا ، پھر درس میں مصروف ہوگئے ۔ مغرب کی نماز کے بعد امام مالک مجھے اپنے گھر لے گئے ، جہاں اب پرانی کھنڈر کی جگہ نئی تعمیر شدہ عمارت تھی ۔ جسے دیکھ کر میں بے اختیار رونے لگا ۔ میرے آنسو دیکھ کر امام مالک نے پوچھا ’’ محمد ! تم کیوں روتے ہو ! کہیں یہ تو نہیں سمجھ رہے کہ میں نے دنیا کے بدلے آخرت فروخت کر دی ہے ‘‘ میں نے کہا ۔ جی ہاں میرے دل میں یہی اندیشہ پیدا ہوا ہے ۔
امام کہنے لگے اپنے دل کو مطمئن کر لو جو کچھ تم دیکھ رہے ہو یہ سب ہدیہ ہے ۔ خراسان ، مصر اور دور دراز کے گوشوں سے میرے پاس یہ تحائف آتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہدیہ قبول کرلیتے تھے صدقہ رد فرماتے تھے ۔ میرے پاس اس وقت بہترین کپڑے کے تین سو خلعت موجود ہیں ۔ غلاموں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے اور تحائف کا یہ سلسلہ کبھی رکتا نہیں ۔ پھر امام مالک نے بتایا کہ نقد رقم اس کے علاوہ ہے اور اس وقت بھی میرے پاس پانچ ہزار دینار موجود ہیں جن کا نصف میں تمہیں دیتا ہوں ۔
امام شافعی نے کہتے ہیں ، اس موقعہ پر میں نے درخواست کی اپنے اس وعدہ کو ضابطہ تحریر میں لے آئیں ، تاکہ میری ملکیت مسلم ہو جائے اور ہمارے وارثوں میں سے کسی کو اعتراض کا موقع باقی نہ رہے ۔
امام شافعی خود ضرورت مند تھے ، اور انہیں خدشہ تھا کہ ایسا نہ ہو کہ رخصت سے پہلے ہی ہم میں سے کسی کا انتقال ہو جائے اور میرے وارث یا میں اس مال سے محروم رہوں ۔ رخصت سے پہلے امام مالک نے بہت سی عمدہ سواریاں بھی امام شافعی کو ہدیہ کر دیں ۔
امام شافعی فرماتے ہیں کہ ۔ تین دن تک امام مالک کے گھر میرا قیام رہا ۔ پھر میں اس حال میں مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوا کہ خدا کی بخشی ہوئی نعمتیں میرے آگے تھیں لیکن اپنے گھر پہنچنے سے پہلے ہی میں نے سب کچھ دوسرے ضرورت مندوں پر لٹا دیا ۔ یہاں تک کہ میرے پاس ایک خچر اور پچاس دینار کے سوا کچھ باقی نہ رہا ۔ میری اس سخاوت کی خبر مشہور ہو گئی اور امام مالک تک بھی پہنچی ۔ انہوں نے ایک خادم کے ہاتھ مزید تحائف بھیجے اور میری حوصلہ افزائی کی کہ فکر نہ کرو میں ہر سال تمہیں بھیجتا رہوں گا ۔ پھر میں بھی ہر شے سے بے نیاز ہو گیا اور اللہ کی دی ہوئی نعمتیں اسی کے بندوں پر فیاضی کے ساتھ خرچ کرنے لگا ۔ امام مالک جب کوئی رقم بھیجتے میں چند دنوں میں ہی مقروض ہو جاتا یہ سلسلہ گیارہ سال تک جاری رہا ، یہاں تک کہ امام مالک کا انتقال ہوگیا ، تب حجاز کی سرزمین مجھ پر بھی تنگ ہو گئی ۔
یہ ایک ایسے مرد جلیل کا بیان ہے جو اسلامی فقہ کا تیسرا امام ہے ، ان واقعات کی تفصیلات پڑھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ امام مالک بن انس کی آسودہ حال زندگی کیسی تھی ۔
[ سفیران حرم سے انتخاب ]